جاں حسینؓ ایماں حسینؓ و دیں حسینؓ و دل حسینؓ

عمدۃ المحدثین مولانا محمد خواجہ شریف صاحب

 

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی میدان کربلا میں اپنے اہل بیت و اہل محبت کے ساتھ شہادت، حقیقت میں شہادت کبریٰ ہے۔ اس کائنات ارضی و سماوی کی تاریخ میں جس کی نظیر نہیں ملتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ممالک محروسہ اسلامیہ کے کبھی کسی خطہ میں، کبھی کسی منطقہ میں ارتدداد و الحاد کے فتنے سر اٹھاتے تو خلافت اسلامیہ کی قوت اس کا سر کچلتی تھی۔ مگر یہ فتنے اسلام کے خلاف بھڑکنے کے لئے زور لگاتے رہتے تھے۔ ابھی ساٹھ سال بھی نہیں گزرے تھے کہ طاغوتی قوتیں چھانے لگیں۔ نظام خلافت کو ڈھایا گیا اور ملوکیت لوٹ کر آگئی۔ قیصریت و کسرویت مسلمانوں میں گھس کر آگئی اور اس کا مزاج اسلام سے متصادم ہونے لگا۔ براعظم ایشیاء سے لے کر یورپ اور افریقہ تک تمام اسلامی محروسہ ممالک پر یزیدی قوت قابض ہو گئی اور یزید پلید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے اعلان جاری ہوا۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور دنیا کا ہر باشعور انسان کہہ رہا تھا کہ یہ خلافت نہیں ہے، بلکہ ملوکیت ہے اور اسلام سے متصادم ہے۔ قوت نافذہ کتاب و سنت کے خلاف ہو گئی ہے۔ خلفائے راشدین کے طریقہ سے ہٹ کر چل پڑی ہے۔ یزیدی قوت کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ لوگو! تم یزید کے ہاتھ پر بیعت مت کرو، مگر ’’الناس علی دین ملوکھم‘‘ کے مصداق عامۃ الناس جگہ جگہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے اور یزیدی قوت اور طاغوتی طاقتیں طے کرلیں کہ ان کی راہ میں آنے والی حق کی ہر طاقت کو دبا دیا جائے اور راہ حق کی روشن عظیم شخصیات کو شہید کردینے کا اعلان کردیا۔ باطل اس قدر زور و شور کے ساتھ اٹھا کہ ساری دنیا اس کو باطل مانتے اور باطل کہتے ہوئے بھی اس کے مقابلہ کی ہمت سے خالی نظر آرہی تھی۔ جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم بھی مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ منتقل ہوتے جا رہے تھے اور اس یزیدی قوت کے مقابلہ میں رخصت سے کام لے رہے تھے۔ اسلام آواز دے رہا تھا اور استغاثہ کر رہا تھا کہ ’’لوگو! تم دنیا میں اسلام چاہتے ہو، امن و سلامتی چاہتے ہو، حق و انصاف چاہتے ہو اور چاہتے ہو کہ اللہ تعالی کا دین قائم رہے تو تم میری راہ میں شہادت کے حصول کی کوشش کرو۔ میری راہ میں سر دھڑ کی بازی لگانا اور اپنی جان کی قربانی دینا۔ اس وقت رخصت نہیں عزیمت ہے، قربانی دینا واجب ہے، یہ عظیم قربانی ہے اور یہ شہادت عظمی ہے۔ رہتی دنیا تک اہل دنیا پر ان کا احسان رہے گا۔ اسلام کی اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسہ اور دنیا و آخرت میں سب کے کام بنانے والے سید شباب اہل الجنۃ اپنے اہل بیت اطہار کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ ۷؍ محرم سنہ ۶۱ ہجری کو میدان کربلا میں پہنچ گئے۔ آپ نے سب سے پہلے دعوت حق دی اور فریضہ تبلیغ ادا کیا۔ یزیدی لشکر کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ قافلہ حق کو شہید کرنے کے طبل جنگ بجا دیا۔ میدان کربلا میں بھوک پیاس سے دو چار کردیا گیا، اولاد و احباب اور جان و مال کے لئے خطرات امنڈ آئے۔ دشمن کی فوج حملہ آور ہو گئی اور قافلہ حق کے ایک ایک شہسوار نے یزیدی طاقت کے کشتے کے پشتے لگا دیئے اور جام شہادت نوش کرتے ہوئے اپنی جان جان آفریں کے حوالے کرتے گئے۔

آخر میں دشمن نے امام عالی مقام، جن سے بڑھ کر اس وقت کائنات ارضی و سماوی میں کوئی عظمت کا مالک نہ تھا، جن سے محبت کا نام ہی ایمان ہے، آپ نے اپنی جان کی قربانی پیش کی اور اپنے روشن خون سے اسلام کے گارے کو گوندھ کر اسلام کی عمارت کو تاقیام قیامت اس قدر منور اور بلند کردیا کہ ساری دنیا پھر منور ہو گئی۔ دنیا میں جہاں جہاں اسلام، ایمان اور دین نظر آرہا ہے اور جہاں جہاں حق و انصاف نظر آرہا ہے، آپ ہی کا صدقہ اور آپ کا احسان ہے۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور رباعی ہے:
شاہ است حسین ، بادشاہ است حسین
دیں است حسین ، دیں پناہ است حسین
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لاالہ است حسین

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ’’شہادت عظمی‘‘ ہے اور آپ سید الشہداء ہیں۔ شہادت کی دو قسمیں ہیں ’’شہادت حقیقی‘‘ اور ’’شہادت حکمی‘‘۔ دین کی سربلندی کے لئے راہ حق میں جان دینے والے اور ظلم سے قتل ہونے والے شہید حقیقی ہیں اور کسی بڑے المناک صدمے سے انتقال کرنے والے شہید حکمی ہیں۔ شہادت کے بہت سے معانی ہیں، منجملہ ان کے حاضر ہونا اور گواہی دینا ہے۔ شہید کی شہادت کے ساتھ ہی اس کی پاکیزہ روح کو جنت میں داخل کردیا جاتا ہے۔ رب تبارک و تعالیٰ ان پر بہت مہربان ہوتا ہے اور شہادت کے ساتھ اپنا قرب عطا فرماتا ہے۔ شہید کے اقرباء پر اپنا کرم فرماتا ہے۔ شہداء کے بہت مراتب ہیں اور ان میں بڑا مرتبہ سید الشہداء ہے۔ سید الشہداء کے بھی بہت سے اعتبارات ہیں۔ خلفائے راشدین بھی سید الشہداء ہیں، جن کے اعتبارات الگ الگ ہیں۔ حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی سید الشہداء ہیں، ان کا اعتبار الگ ہے۔ حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام بھی سید الشہداء ہیں۔ اس دنیا میں جتنے اعتبارات اللہ نے رکھے ہیں، ہر اعتبار سے آپ سید الشہداء ہیں۔ آپ کا نام کس قدر حسین و میٹھا ہے۔ اسی نام سے جہاں میں حسن و مٹھاس آئی ہے۔ آپ عرش کی زینت، جنت کی خوشبو اور اس کے لئے باعث افتخار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم اور حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نواسے، حضرت سیدہ فاطمہ اور سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہما کے لخت جگر، نوجوانان جنت کے سردار، نوال و جمال اور کمال میں بے مثال، حسین منی وانا من حسین، یعنی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کے مظہر، آپ سے محبت ایمان، آپ کا حبیب اللہ و رسول کا محبوب۔
کس قدر ظالم ہے وہ شخص جو آپ کو شہید کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا، جو آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے خاندان کو بھی شہید کردے۔ یہ شہادت کس قدر المناک ہوئی، یہ وہ غم ہے جو بُھلائے نہیں بھولتا۔ غم حسین سے خدا سب کو سرفراز کرے۔ یہی وہ غم ہے جو ہر غم سے بے نیاز کرے۔ آپ کی شہادت دنیا میں انقلاب لائی اور دیکھتے ہی دیکھتے اہل حجاز نے یزید کی بیعت توڑ دی۔ دنیا میں روشنی پھیل گئی اور سیدنا عمر بن عبد العزیز دنیائے اسلام کے خلیفہ بن گئے اور ساری دنیا پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا تاقیامت احسان چھا گیا۔