تدبیر سے رُخ موڑ کے بے وجہ و سبب
سنگینیِ حالات کا چرچا ہے عبث
جان کیری کا دورہ
ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تجارت کے مسئلہ کے بشمول کئی مسائل ہیں۔ نیو کلیئر معاہدہ کو قطعیت دینا ہے لیکن مرکزمیں نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کے اقتدار پر آتے ہی امریکہ نے زبردست پھرتی و دلچسپی دکھاتے ہوئے نئی دہلی کی جانب اپنی دوڑ کو تیز کردیا۔ امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری کے دورہ سے ہند۔امریکہ کے درمیان تعلقات کو ایک نئی سمت دی جاتی ہے تو یہ ہندوستان کے حق میں کس حد تک مفید ہوگا یہ نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے بعد واضح ہوگا۔ 10 ستال تک اپنے سے دور رکھنے کے بعد امریکہ نے مودی کو اہمیت دینے کا جو مظاہرہ شروع کیا ہے وہ ایشیاء میں ہندوستان کی ابھرتی طاقت کے تناظر میں دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ کو ہندوستان کے ساتھ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا تنازعہ ،انٹلیکچول پراپرٹی رائٹس کا معاملہ، سبسیڈی کے مسئلہ کی یکسوئی کیلئے بہت کچھ کرنا ہے ۔ عالمی تجارتی تنظیم کے بارے میں ہندوستان نے اپنے موقف کو واضح کردیا ہے کہ وہ غذائی سلامتی اور تجارتی سہولیات کے معاملہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریگا۔ اس وضاحت نے امریکہ کو شدید مایوس کردیا ہے کہ ہندوستان نے گذشتہ سال ڈسمبر میں کئے گئے اپنے معاہدوں کو واپس لے لیا ہے۔ اس سخت موقف کے باوجود اگر امریکہ نے نرمی کا مظاہرہ کیا ہے تو اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ اسے ایشیاء میں چین کے خلاف ایک طاقتو اتحادی ملک کی ضرورت ہے ویسے نریندر مودی نے امریکہ کے بارے میں ابھی تک اپنی پالیسی کو واضح نہیں کیا ہے لیکن آئندہ ماہ ستمبر میں صدر امریکہ بارک اوباما سے ہونے والی ان کی ملاقات کے بعد ہی یہ واضح ہوسکے گا کہ ہند۔ امریکہ تعلقات کا مستقبل کتنا مضبوط اور پُر اعتماد ہوگا ۔ جان کیری نے یہی توقع ظاہر کی کہ ہندوستان تجارت کے معاملہ میں لچکدار موقف ظاہر کرے گا تو غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے ماحول سازگار ہوگا ۔ امریکہ کی کئی کمپنیاں ہندوستان میں سرمایہ کاری کیلئے آگے آئیں گی اس لئے نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے 3 ماہ کے اندر ہی امریکہ نے ہمہ مقصدی وفود کو روانہ کرتے ہوئے ماحول کو ساز گار بنانے کی کوشش کی ہے ۔ ایک طرف جان کیری نے ہندوستان کی معاشی طاقت اور اس کی دیگر صلاحیتوں کی ستائش کی ہے اور اوباما نے مودی سے ملاقات کے منتظر ہونے کا مظاہرہ کیا ہے دوسری طرف امریکہ ڈبلیو ٹی او تجارتی سہولیات پر ہندوستان کے موقف کی شدید مخالفت کررہا ہے تو یہ اس کی دو رخی پالیسی کسی مطلب کے بعیر ممکن نہیں۔ امریکہ کے تعلق سے یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں وہ ایک موقع پرست ملک کے طور پر جانا جاتا ہے جب اس کو محسوس ہوا کہ ایشیاء میں چین کی ٹکر پر ہندوستان کھڑا ہے تو اپنی ایشیائی پالیسی میں ہندوستان کو ترجیح دینے لگا مگر اس نے اب تک ایسا کوئی فارمولا پیش نہیں کیا جس سے یقین ہوسکے کہ ہند۔ امریکہ دوستی سے دونوں فائدہ ہوگا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی سے جان کیری کی ملاقات میں اہم موضوعات تجارت،سرمایہ کاری ،صاف ستھری توانائی،اختراعی اقدامات ،تعلیم، مہارت کو فروغ، زرعی ترقی اور نوجوانوں کو با اختیار بنانے کے لئے مواقع اور کشادگی راہیں تلاش کرنے پر غور و خوص کیا گیا اگر دونوں ملک اس جذبہ کے ساتھ ویژن حکمت عملی اور ایکشن پلان کی بنیاد پر تعلقات کو ایک نئی سطح عطا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ٹھوس نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ اس طرح امریکہ کو ڈبلیو ٹی او میں ہندوستان کے موقف کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے ۔ اگر حقیقی شکایت کی یکسوئی کے بغیر ہندوستان سے معاہدہ پر دستخط کی توقع کی جاتی ہے تو یہ فضول ہوگی ۔ امریکہ کو ڈبلیو ٹی او میں ترمیم کیلئے ہندوستان کے اصرار کو مد نظر رکھنا ضروری ہے ۔ غذائی اجناس کے ذخیرہ سے متعلق ڈبلیو ٹی او کے اصولوں میں ترمیم نہیں کی گئی تو یہ ہندوستان کے غذائی سلامتی پروگرام کیلئے نازک مسئلہ بن جائے گا۔ ڈبلیو ٹی او کے موجودہ اصولوں کے مطابق غذائی اجناس کی پیداوار کی جملہ قدر کے صرف 10 فیصد پر غذائی سبسیڈی کی حد مقرر ہے جبکہ اس کیلئے مقررہ قیمتیں دو دہوں پرانی ہیں ۔ ہندوستان غذائی سبسیڈی کو افراط زر اور موجودہ مارکٹ کی رفتار کا جائزہ لینے کیلئے تبدیل کرنے کیلئے زور دے رہا ہے ۔ گذشتہ ڈسمبر میں جس نیک مقصد کے ساتھ معاہدہ پر اتفاق کیا گیا تھا اس جذبہ کو آگے بڑھاتے ہوئے غذائی اجناس کے ذخیرہ پر ترقی پذیر ملکوں کے اندیشوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔
تقررات میں بے قاعدگیوں کی شکایات
کنٹراکٹ ملازمین کو باقاعدہ بنانے کے تنازعہ پر تلنگانہ کی نئی حکومت کو عثمانیہ یونیورسٹی کے کیمپس سے شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد حکومت نے عہدیداروں کو ہدایت دی کہ کسی بھی محکمہ میں کنٹراکٹ عملہ کو باقاعدہ بنانے یا کوئی اور کام کیلئے حکم جاری نہ کریں ۔ حکومت کو پہلی مرتبہ شدید اعترضات کا منہ دیکھنا پڑا ہے ۔ نئی حکومت کے مسائل بھی نئے اور مختلف ہوتے ہیں تو پھر چندر شیکھر راو کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے ہوں گے کیوں کہ تلنگانہ تحریک کی کامیابی میں عثمانیہ یونیورسٹی کے مرکزی احتجاج کا رول بھی اہمیت رکھتا ہے ۔ کسی بھی تحریک کے اٹھنے کی وجوہات ہوتی ہیں۔ حق تلفی بھی ان میں سے ایک وجہ ہے ۔ کنٹراکٹ ملازمین کو باقاعدہ بنانے کا مسئلہ نازک ہے ۔ ایک طرف نئے تقررات اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے تو دوسری طرف موجودہ کنٹراکٹ اسٹاف کو بھی ریگولرائز کرنے کی پالیسی پر اعتراضات سے نمٹنا ہے حکومت کو طلبا برادری اور مختلف گوشوں و محکموں سے شکایات وصول ہوئیں کہ بعض محکموں کی جانب سے کنٹراکٹ اسٹاف کے تقررات میں عجلت کی جارہی ہے ۔ تقررات کو منصفانہ اور شفاف طریقہ سے پورا کیا جائے تو اس پر کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی مگر اقرباء پروری یا رشوت خوری سے تقررات کے عمل میں بے قاعدگیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ طلبا برادری اور دیگر گوشوں نے ایسی ہی بے قاعدگیوں کے خلاف احتجاج شروع کیا ہے ۔ کنٹراکٹ اسٹاف کو باقاعدہ بنانے کیلئے جاری کردہ احکامات میں پرانی تاریخوں کا اندراج کی شکایت غور طلب ہے ۔ حکومت کو اس کا نوٹ لینا چاہئے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے طلباء کی شکایت کا نوٹ لیا جانا چاہئے کیوں کہ 16 جولائی سے تقریبا 100 غیر تدریسی عملہ کے ارکان کے تقرر کے احکامات عجلت میں جاری کئے گئے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر 16 جولائی کو یہ احکامات جاری کرنے کے پیچھے معقول وجہ کیا ہے جبکہ یہ تاریخ وائس چانسلر پروفیسر ایس ستیہ نارائنہ کی سبکدوشی کا آخری دن کی ہے قواعد کی روشنی میں کوئی بھی وائس چانسلر اپنی معیاد کے آخری 6 ماہ کے دوران نئے تقررات کیلئے احکامات جاری نہیں کرسکتی لیکن عثمانیہ یونیورسٹی میں ایسا ہوا ہے تو حکومت کو اس کا نوٹ لینا چاہئے ۔ تقررات کیلئے بڑے پیمانے پر رشوت کی رقم مختلف ہاتھوں میں پہونچی ہے تو اس میں ملوث ہر کوئی بااثر عہدیدار اثر انداز ہونے کی کوشش کرے گا اگر حکومت نے ابتداء میں ہی تمام سرکاری محکموں پر اپنا کنٹرول باقی نہیں رکھا تو آگے چل کر اس کے لئے دیگر مسائل پیدا ہوں گے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو اپنی حکومت کی کارکردگی پر کوئی آنچ آنے نہیں دینا چاہئے ان کی مساعی یہ ہونی چاہئے کہ وہ تمام سرکاری محکموں کو بد عنوان آفیسرس کے خلاف تحقیقات کروائیں اور جہاں بے قاعدگیاں ہوئیں وہاں خصوصی انکوائری کروائی جائے۔