جان کیری کا دورۂ عراق

دُنیا اس انقلاب پہ حیران ہوگئی
اب داستانِ عشق کی تکمیل ہو نہ ہو
جان کیری کا دورۂ عراق
امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری کا دورہ عراق شورش پسندوں کو مزید مشتعل کرتا ہے تو اس دورہ کے مضمرات بھیانک ہوسکتے ہیں۔ جان کیری نے عراقی قیادت کے علاوہ کردش علاقائی حکومت کے سربراہ سے ملاقات کی۔ عراق میں رونما ہونے والے سیکورٹی اور سیاسی چیلنجس سے نمٹنے کیلئے کردش قائدین کس حد تک معاون ہوں گے ، یہ امریکی وزیر خارجہ کو اندازہ ہونا چاہیئے۔ اس وقت عراق کی حکومت اور کردش علاقائی قیادت کو جن نئے چیلنجس کا سامنا ہے اس میں حیران کردینے والی بات یہ ہے کہ عراق کے شورش پسند گروپس بہت زیادہ تیاری کرکے میدان میں اُترنے والا جنگجو دستہ ہے۔ دولت اسلامی عراق و شام ( داعش ) سے وابستہ جنگجوؤں کی پھرتی اور مسلح کارروائیوں پر آج ہر کوئی حیرت کا اظہار کررہا ہے، یہ تیاری چند مہینوں کی نہیں ہے۔ عراقی جنگجوؤں کو جس طرح کے نام سے مخاطب کیا جارہا ہے ان کی برق رفتار کارروائیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ نے 2003ء سے عراق میں رہ کر کچھ خاص سیکورٹی خدمات انجام نہیں دیں۔ اس نئی اُبھرنے والی طاقت نے عراق کے کئی قصبوں اور اہم اداروں و تنصیبات پر اپنا کنٹرول قائم کرلیا ہے۔ امریکہ اس کارروائی کے خلاف کوئی ٹھوس قدم اُٹھانے میں بھی پس و پیش کررہا ہے تو اس کا مطلب عراق کے اندر کی صورتحال پر کئی راز کے پردے پڑے ہیں۔ داعش میں شامل افراد کی صلاحیتوں، فوجی تیاریوں اور مجاہدین کے حوصلوں پر ہر کوئی سوال اُٹھا رہا ہے۔ اس طاقت نے عراق کی امریکی تربیت یافتہ فوج کو روند دیا ہے تو کئی سپاہیوں کو موت کی نیند بھی سلادی ہے۔ جنگجو گروپ نے عراق کی سب سے بڑی ریفائنری تک رسائی حاصل کرلی ہے تو عراق کی تمام سیکورٹی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں شورش گروپ اپنی انتھک جدوجہد کو آخر تک لے جانے کی قسم کھالی ہے۔ اس گروپ نے اردن اور شام سے متصل سرحدوں کے مواضعات کا بھی کنٹرول حاصل کرلیا ہے تو یہ عراق کو امریکی تربیت یافتہ فوج کیلئے لمحۂ فکر ہے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ کا دورہ اس سنگین صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے معاون ثابت ہوگا، یہ کہنا مشکل ہے۔ امریکہ کو القاعدہ کے وجود سے ہی نفرت ہے تو وہ اس سے وابستہ گروپ کو بھی برداشت نہیں کرے گا۔ مگر اب تک اس کی کارروائیوں سے اندازہ ہورہا ہے کہ امریکہ کوئی بڑی کارروائی کرنے سے گریز کرکے مذاکرات سے کام لینا چاہتا ہے۔ عراق میں اس عدم استحکام کی کیفیت کو شام کے واقعات سے مربوط کرنے والوں کا خیال غور طلب ہے کہ یہ شدت پسند عناصر حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کو بہتر بنانے کی مہم پر ہیں۔ عراق کے حالات کو صرف چند مٹھی بھر شورش پسند عناصر کی کارستانی قرار دے کر خاموشی اختیار کرنے کی کوشش مجرمانہ غفلت قرار پائے گی۔ کیونکہ شورش پسندوں نے اپنی کارروائیوں کے ذریعہ جو پیام دیا ہے، وہ سراسر عراق کے عوام کے اب تک کے صبر کے پیمانے کو لبریز کردینے کے مترادف کہا جاسکتا ہے۔ عراق میں برسوں سے حکومت کرنے والی نوری المالکی حکومت کی معاشرتی عدم توازن کی پالیسیوں نے عراقیوں کو بے قرار و مضطرب کرکے رکھ دیا ہے۔ عراق کی بیشتر آبادی غربت کا شکار ہے، ہوسکتا ہے کہ غربت نے انہیں ہتھیار اُٹھالینے پر مجبور کردیا ہو اور پیٹ کی بھوک نے داعش کے ارکان کے حوصلے بلند کردیئے ہوں۔ عراق کو اسلامی خلافت سے آراستہ کرنے کی کوشش کے حوالے سے اس گروپ کو مختلف زاویہ نگاہی سے دیکھ کر اگر عراق کے حالات کو یوں ہی سُلگتا چھوڑ دیا گیا تو مسائل کا انبار لگے گا۔ امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری کو اپنے دورہ کے دوران زمینی حقائق کا جائزہ لینا چاہیئے تھا۔ کردش یا نوری المالکی حکومت کے نمائندوں سے ملاقات کے علاوہ عراق کی غربت کا شکار آبادیوں کے عوام کے حالات کا جائزہ لینا چاہیئے تھا۔ صدر امریکہ بارک اوباما نے اپنی صدارتی انتخابات میں کامیابی اس لئے حاصل کی تھی کہ انہوں نے عراق جنگ کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اب اوباما کو دوسری میعاد میں عراق کی صورتحال کا سامنا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے عراق کی صورتحال کا درست اندازہ نہیں کیا تھا۔ اب بھی وہ عراق کی کیفیت کا سنجیدہ نوٹ نہیں لے رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتہ وزیر اعظم نوری المالکی کی اپیل کے بعد انہوں نے عراق کو فوج روانہ کرنے کا تیقن دیا تھا اور بعض منتخبہ مقامات پر جہاں جنگجو سرگرم ہیں وہاں بمباری کا فیصلہ کیا تھا، لیکن کچھ گھنٹوں بعد وہ اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔ اس کے پیچھے کیا مقصد اور مجبوری ہے یہ وہی بہتر جانتے ہیں، مگر عراق کی صورتحال سیاسی و معاشی مسائل کو پیچیدہ بنادے گی تو یہ ساری دنیا کیلئے لمحۂ فکر بن جائے گی۔ اوباما کو اپنے وزیر خارجہ جان کیری سے عراق کی سنگین صورتحال پر تبادلہ خیال کرکے اس مسئلہ کا فوری حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔