نئی دہلی : یونیورسٹی وائس چانسلر ، رجسٹرار اور ٹیچرس ایسو ایشن کی عرضی منظور کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے گذشتہ روز حکومت کی جانب سے ایڈیشنل سالسٹر جنرل کے ذریعہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کے خلاف پچھلے مہینے کئے گئے حلف نامہ کے عمل کو لے کر خاصی ناراضگی ظاہر کی
او راپنے ۱۳؍ مارچ کودئے ہوئے اپنا حکم واپس لے لیا۔ساتھ ہی اس کیس میں الومنائی ایسو ایشن آف جامعہ ملیہ اسلامیہ کی فریق بننے کی درخواست کوبھی قبول کرلیا جس پر عہدیداران نے میٹنگ کرکے خوشی کا اظہارکیا
۔قابل ذکر ہے کہ ۵؍ مارچ کو پیش کردہ اور عدالت عالیہ کے ذریعہ اس حکم پر ۱۳؍ مارچ کو لینے والے نئے حلف نامہ میں این ڈی اے سرکار نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ۱۹۶۸ء کے عزیز پاش والے مقدمہ کا حوالہ دیا ہے۔
اس نئے حلف نامہ میں سرکارکا موقف ہے کہ پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعہ قائم شدہ یونیورسٹی جو سرکاری امداد یافتہ ہو اقلیتی کردار کا دعویٰ نہیں کرسکتی ہے۔
مذکورہ عزیز پاشا مقدمہ میں مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خلاف اپنے آرڈر میں سپریم کورٹ نے کہاتھا کہ مسلم یونیورسٹی مسلم طبقہ کے ذریعہ نہیں بلکہ اس وقت کی برطانوی حکومت نے قائم کی تھی ۔
این ڈی اے سرکار نے جامعہ کے اقلیتی کردار کی واپسی کے موقف کا عندیہ گذشتہ سال ۱۵؍ جنوری کو دیا تھا۔وزیربرائے فروغ انسانی وسائل اسمرتی ایرانی کے تحت وزارت تعلیم نے کہا تھا کہ ۲۹؍ اگست ۲۰۱۱ء یوپی اے سرکار کے ذریعہ دیا گیا تائیدی حلف نامہ نا سمجھی کا نتیجہ تھا۔