جامعہ عثمانیہ اور دارالترجمہ اُردو زبان کا ورثہ

جامع مسجد عالیہ میں جناب احمد علی کا ’’جامعہ عثمانیہ اور اس کے معمار ‘‘پر خطاب
حیدرآباد 6 اگسٹ (راست) اُردو کی اولین جامعہ عثمانیہ یونیورسٹی اور دارالترجمہ کی تصانیف اُردو زبان کا عظیم ورثہ ہے۔ مولانا آزاد قومی اُردو یونیورسٹی اس سے استفادہ کرے۔ میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر علوم کے قدیم تراجم کو جدید آہنگ میں تبدیل کریں۔ ان خیالات کا اظہار جناب احمد علی کیوریٹر سالار جنگ میوزیم (موظف) نے کانفرنس ہال جامع مسجد عالیہ گن فاؤنڈری میں تاریخ اسلام لکچر کی 785 ویں نشست کو بعنوان ’’جامعہ عثمانیہ اور اس کے معمار‘‘ کیا۔ نشست کا آغاز حافظ محمد شاہد حسین کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔ جناب احمد علی نے آصف جاہ سابع کی علمی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ جامعہ کا ذریعہ تعلیم اُردو قرار دینا ایک مدبرانہ فیصلہ تھا۔ آصف جاہ سابع نے اس کے لئے دارالترجمہ قائم کرکے ایک نظیر قائم کی۔ انھوں نے حیدرآباد میں مدارس کے قیام کی تحریک پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ یہاں کی اولین درسگاہ مدرسہ فخریہ کو شمس الامراء نے قائم کیا۔ بعدازاں سالار جنگ اول کے عہدِ وزارت میں امراء کے بچوں کے لئے مدرسہ عالیہ، جاگیرداروں کے لئے بیگم پیٹھ، اعزہ کے لئے مدرسہ اعزہ اور عوام الناس کے لئے مدرسہ دارالعلوم کا قیام عمل میں لایا۔ یہی دارالعلوم جامعہ عثمانیہ کی بنیاد ثابت ہوا۔ طلبہ دارالعلوم نے 1913 ء میں حیدرآباد ایجوکیشنل کانفرنس کے ذریعہ جامعہ کے قیام کی تجویز پیش کی۔ چنانچہ 24 اپریل 1917 ء کو جامعہ کے قیام کی منظوری ملی۔ دارالعلوم حیدرآباد، اورنگ آباد اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حیدرآبادی طلبہ پر مشتمل جامعہ کی ابتدائی جماعتیں سانچہ توپ کے علاقہ میں شروع ہوئیں۔ ابتداء میں جناب غلام یزدانی سینئر ایڈوکیٹ و کنوینر محافل نے مقرر کا تعارف کروایا اور عنوان کی آج کے حالات میں اہمیت کا ذکر کیا۔ مقرر صاحب کی دعا پر محفل کا اختتام عمل میں آیا۔