جامعات ‘ کو ہندوتوا رنگ دینے کی کوشش

افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
جامعات ‘ کو ہندوتوا رنگ دینے کی کوشش
گذشتہ دنوں سے دہلی میں یونیورسٹی کے طلبا گروپس کے مابین ٹکراو اور تصادم کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ یہاں اے بی وی پی سے تعلق رکھنے والے طلبا کی جانب سے غنڈہ گردی کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ یہاں دوسری طلبا تنظیموں سے تعلق رکھنے والے طلبا کو نشانہ بناتے ہوئے ان کی سرگرمیوں کو روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ دہلی کے باوقار رامجاس کالج میں ہونے والے ایک سمینار کو اے بی وی پی کی غنڈہ گردی کی وجہ سے منسوخ کردینا پڑا اور یہاں جے این یو کے سابق طلبا لیڈر عمر خالد کو سمینار سے خطاب کرنے سے روک دیا گیا ۔ عمر خالد کے خلاف احتجاج صرف عمر خالد کے خلاف احتجاج نہیں ہے بلکہ یہ اس نظریہ کے خلاف احتجاج ہے اور اس نظریہ کو کچلنے کی کوشش ہے جس کے ذریعہ سماج میں ہم مساوات پیدا کرنے اور غریبوں کو ان کا حق دینے کی وکالت کرتا ہے ۔ یہ سلسلہ حالانکہ اس وقت سے ہی شروع ہوگیا تھا جب سے مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت قائم ہوئی تھی ۔ بتدریج یہاں طلبا تنظیموں پر لگام کسنے کی کوششیں شروع ہوئی تھیں اور مخالف نظریات کے حامل طلبا کو نشانہ بنانے کا عمل پوری شدت کے ساتھ شروع ہوگیا تھا ۔ نصاب میں تبدیلیوں کا عمل بھی پوری تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے ۔ جب جے این یو میں ایک تقریب منعقد ہوئی تو اسے بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مخالف نظریات کے حامل طلبا قائدین کو جیلوں میں بند کردیا گیا اور ان پر غداری جیسے سنگین الزامات عائد کئے گئے ۔ اس سے قبل حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں روہت ویمولہ کا عرصہ حیات اس حد تک تنگ کردیا گیا کہ اس دلت ریسرچ اسکالر نے خود کشی کو ترجیح دی ۔ روہت ویمولہ کے بعد کنہیا کمار اور عمر خالد کے علاوہ انیربن بھٹاچاریہ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا ۔ ابھی یہ مقدمہ عدالت میں ہی زیر دوران تھا کہ دہلی یونیورسٹی کے طالب علم نجیب کے پر اسرار طور پر لاپتہ ہونے کا واقعہ پیش آیا ۔ ہماری سارے ملک کی حکومت اور پولیس مل کر ابھی تک نجیب کا پتہ چلانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔ یہ معاملہ بھی صرف اغوا یا لاپتہ ہونے تک محدود نظر نہیں آتا بلکہ اس کے پس پردہ بھی نظریاتی حکمت عملی ہی کاربند نظر آتی ہے ۔
رامجاس کالج میں ہونے والے ایک سمینار کو جس طرح سے اے بی وی پی کی غنڈہ گردی کے ذریعہ منسوخ کروادیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت اس طلبا تنظیم کی سرپرستی کرنے لگی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ تنظیم تمام جامعات میں غنڈہ گردی کرتی نظر آرہی ہے ۔ اس تنظیم کے ذریعہ مرکزی حکومت اپنے اور آر ایس ایس کے نظریات پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مرکزی حکومت آر ایس ایس کے نظریات کو جامعات پر اور تمام طلبا برادری پر مسلط کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے اور اس منصو بہ پر بہرصورت عمل آوری کروائی جا رہی ہے ۔ جن طلبا تنظیموں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ سماج میں مساوات کی بات کرتی ہیں۔ وہ سماج سے غربت کے خاتمہ کا مطالبہ کرتی ہیں۔ وہ سماج میں بیروزگاری کے خاتمہ کا مطالبہ کرتی ہیں۔ وہ سماج میں ہر ایک کو مساوی حقوق دینے کی بات کرتی ہیں ۔ وہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کی بات کرتی ہیں۔ وہ سماج میں آمرانہ طرز عمل کی مخالفت کرتی ہیں ۔ وہ کسی مخصوص نظریہ کو قبول کرنے کی بجائے اصلاحات پسندی کی بات کرتی ہیں اور شائد یہ باتیں حکومت کو پسند نہیں ہیں۔ حکومت اے بی وی پی جیسی تنظیم کے ذریعہ ملک کی جامعات اور یونیورسٹیز کو بھی بھگوا رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے اور وہاں نہ صرف تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں بلکہ ایک مخصوص نظریہ کو روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنانے کی کوششیں پوری شدت کے ساتھ شروع کردی گئی ہیں۔ جہاں تک دوسری طلبا تنظیموں کا سوال ہے وہ ایسے ایجنڈہ کو قبول کرنے تیار نظر نہیں آتیں ۔
یہ تنظیمیں سماجی مساوات اور انصاف کی جدوجہد کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں ۔ سماج کے دبے کچلے طبقات کو ان کے حقوق دلانے کی بات کرتی ہیں اور اس کیلئے جدوجہد کرنے کو تیار نظر آتی ہیں لیکن آر ایس ایس ان تنظیموں کو اپنے اور اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے خطرہ سمجھتی ہے اور اسی لئے اے بی وی پی کو استعمال کرتے ہوئے ملک کی جامعات اور یونیورسٹیز کا ماحول پراگندہ کیا جا رہا ہے ۔ جن ذہنوں کو ریسرچ کے ذریعہ ملک کی خدمت انجام دینے کیلئے پروان چڑھانے کی ضرورت ہے انہیں فرقہ پرستی اور تعصب کی آگ میں جھونک دیا جا رہا ہے اور خود ان کا مستقبل بھی تاریک کیا جا رہا ہے ۔ یہ ایسا عمل ہے جو ملک اور ملک کے مستقبل سے کھلواڑ کے مترادف ہے ۔ حکومت کو ایسی کوششوں سے باز آجانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کی یونیورسٹیز کو اپنے متعصب ایجنڈہ کی تکمیل کا ذریعہ نہیں بلکہ روشن مستقبل کیلئے ریسرچ کا مرکز بنایا جاسکے ۔