جارحانہ قوم پرستی

سازشیں دوستوں کی ہیں ساری
دوستوں سے کوئی گلہ ہی نہیں
جارحانہ قوم پرستی
ہندوستانی مسلمانوں کی آنکھ جو کچھ دیکھ رہی ہے اس پر آنے والے دنوں میں نام نہاد قوم پرستوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے طوفان کا عکس بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ حاکم جس طرح سرکش نظر آتا ہے اس پر ایک اندیشہ مسلمانوں میں سے ہی چند لوگوں نے پیدا کرنا شروع کیا ہے۔ ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ کے کہنے یا نہ کہنے کی بحث کے ساتھ فتویٰ بھی جاری ہوچکا ہے۔ اسمبلی سے ایک مسلم رکن اسمبلی کو معطل کردینے کا واقعہ اور ایک مسلم رکن پارلیمنٹ کا بھارت ماتا کی جئے کہنے سے انکار کا شور اتنا مچایا جارہا ہے کہ کون جانے کہاں کہاں کون کون سی سازشیں کس کس کے ساتھ تیار ہورہی ہے۔ وہ لوگ جو جنونی ہیں جو کسی کی نہیں سنتے جو سب کو غلط جانتے ہیں حکمراں بنے بیٹھے ہیں۔ ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ کو ہندوستانی مسلمانوں کی بہت بڑی اجتماعی بدنصیبی بنانے اور بہت زیادہ نقصان کا سبب بننے والا نعرہ باور کرانے والوں نے دن بہ دن اپنا شر تیز کرنا شروع کردیا ہے۔ ایسے میں ہندوستانی مسلمانوں خاص کر ان کے دینی، سماجی اور معاشرتی اداروں کی ذمہ داریاں کیا ہونی چاہئے، ان کے نمائندوں کے احساسات کس طرح ظاہر ہونا چاہئے یہ ایک فکری اور مصلحت پسندی کا معاملہ ہے۔ ہر معاملے میں سے مفادات تلاش کرنے والے کچھ اور سوچتے ہوں گے لیکن مسلمانوں کو فرقہ پرستوں اور نام نہاد قوم پرستوں کی سازشوں کا شکار بنانے والی حرکتوں سے ازخود مسلمان کس حد تک چوکس و چوکنا ہیں یہ غور کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے فتویٰ کے تناظر میں جو کچھ جواب دیا گیا اور جو کچھ سوالات اُٹھ رہے ہیں وہ صرف مفاد پرستی کی سیاست کے گدلے پانیوں میں اپنے مفادات کی مچھلیاں پکڑنے والے ہی ذمہ دار قرار پاتے ہیں۔ لمحہ فکر تو یہ ہے کہ ہندوستان کے اندر اب شور کیوں اٹھ رہا ہے جس میں مسلمان ہی نشانہ بن رہے ہیں۔ ملک کے اندر ایسی فضاء پیدا کردی جارہی ہے جہاں جارحانہ قوم پرستی کے نعروں اور نفرت کی سیاست کو بڑھاوا مل رہا ہے۔ جو طاقتیں قوم پرستی کا دعویٰ کررہی ہیں دراصل مسلمانوں سے نہیں بلکہ خود اپنے وطن سے سیاسی نظریات کی جنگ کررہے ہیں۔ جو لوگ ان کے نظریات کی مخالفت کررہے ہیں، ان کے لئے سزا بھی تجویز کی جارہی ہے۔ منظم طریقہ سے ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کرنے کے لئے اول سے بدنام ہندوتوا تنظیموں کو اب سرکاری سرپرستی مل چکی ہے تو وہ خود کو اس ملک کے دستور اور جمہوری اصولوں سے بالاتر سمجھنے لگے ہیں۔ مگر ان کی یہ مخالفت اور نفرت نظریہ دیرپا کا باب نہیں ہوگا۔ کیوں کہ جب کوئی طاقت حد سے زیادہ آگے بڑھتی ہے تو اس کا خاتمہ صرف متحدہ طاقت ہی کرے گی اور یہ متحدہ طاقت ہندوستانی عوام کی اجتماعی قوت ہے۔ اس میں ہندوستانی مسلمان اور سیکولر عوام کی اکثریت شامل ہے۔ اگر مرکز کی بی جے پی حکومت اختلاف اور مزاحمت کے ہر راستے کو بند کرکے اپنی بالادستی چلانا چاہے گی تو یہ ہرگز ممکن نہیں ہوگا۔ ہندوستانی مسلمانوں کو ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ کے نعرہ میں اُلجھاکر ملک د شمن یا غدار قرار دینے کی ناپاک سازشوں میں بھی ہرگز کامیابی نہیں ملے گی۔ وہ ہندوتوا کے اپنے اصل ایجنڈے کے حصول کے لئے ملک کی سوچ و فکر پر غالب آنا چاہتی ہے۔ جب ایک مسلم رکن پارلیمنٹ نے بھارت ماتا کی جئے نہ کہنے کا اعلان کیا تو ہندوتوا برگیڈ کو اپنے ہندوتوا راشٹریہ اسکرپٹ کو مضبوطی سے لاگو کرنے کا موقع مل گیا۔ اب دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ ہندوستانی مسلمانوں کے کاز میں کیا کام کرے گا اور ہندوتوا طاقتوں کو اس فتویٰ کے حوالے سے اپنے نظریات کا پرچار کرنے میں کس حد تک شرارت کا موقع ملے گا یہ وقت ہی بتائے گی۔ ایسے تنازعات پیدا کرنے والی حرکتیں نئی نہیں ہیں۔ سابق میں اسکولوں میں وندے ماترم گانے کی ضد کی گئی تھی اور طلباء کے لئے یہ وندے ماترم کہنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اب بھارت ماتا کی جئے پر اصرار ہورہا ہے اور اس کو حب الوطنی کا ثبوت بھی سمجھا جارہا ہے۔ یہ نام نہاد قوم پرستی کی بدشکل طاقتیں اپنے خوفناک و ناپاک چہرہ و منصوبہ لے کر ہندوستان کی تہذیب، ثقافت، روایت، مذہبی ، ہمہ لسانی اور ذات پات کی شناخت کو مسخ کرنے کے درپے ہیں۔ ایسی صورت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ہندوستان کے سیکولر کردار کے تحفظ، ہمہ ثقافتی، ہمہ مذہبی اور ہمہ لسانی ہندوستان کی سلامتی کے لئے متحد ہونا ہوگا۔ ہندوتوا طاقتوں نے اس ملک کے مسلمانوں کو اصل نشانہ بنایا ہے مگر مسلمانوں کو خوف زدہ ہونے کے بجائے بڑے عزم کا اظہار کرنا چاہئے۔ ماحول میں اگر بحران و مسائل پیدا ہوتے دکھائی دے رہے ہیں تو ذرا سنبھل کر چلنا چاہئے۔ ذرا سی لغزش منزل کو اوجھل کرسکتی ہے۔ اگر کوئی قوم پرستی کے نام پر تصادم پر آمادہ ہے تو تجربے سے یہ بات واضح ہے کہ فرقہ پرستی اور اختلاف و مزاحمت چند لوگوں کے پیدا کردہ مسائل ہیں اور ان سے مؤثر انداز میں نمٹنے کے لئے ہمہ جہت حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
ہندوستان میں سونے کی قدر
ہندوستانی عوام کو قیمتی دھات سونے سے زیادہ دلچسپی ہے اس لئے ایک اندازہ کے مطابق یہ قیمتی دھات یعنی 20 ہزار ٹن سونا ہندوستانی عوام کے گھروں اور مندروں میں ہے۔ اس لئے حکومت نے عوام کے پاس موجود سونے کو حاصل کرتے ہوئے اس کے عوض ترغیبات کا اعلان کیا ہے۔ ہندوستان ہر سال 1000 ٹن سونا درآمد کرتا ہے۔ اگر شہری اپنا سونا سرکاری بینک میں جمع کرادیں گے تو اس کے لئے انھیں 12 تا 15 سال کی مدت یا 5 تا 7 سال کی مدت کے دوران 2.50 فیصد سالانہ شرح سود ملے گا جو بینک ڈپازٹس سے بہت کم ہے۔ سونے کو جمع کرانے کی اس اسکیم کو مزید پُرکشش بنانے کے لئے حکومت نے سرمایہ کاروں کو بھی ترغیب دی ہے۔ اس کوشش کے نتیجہ میں مندروں کے ٹرسٹیز کو سونا ڈپازٹ کرانے کی ترغیب ملے گی۔ حکومت جانتی ہے کہ مندروں کے ٹرسٹیز کے پاس غیرمعمولی سونا ہے۔ وسط یا طویل مدتی سرکاری ڈپازٹ اسکیم کے تحت سونے کو ڈپازٹ کرانے پر مدت کی تکمیل کے بعد ڈپازٹ کردہ سونے کی موجودہ قیمت ادا کی جائے گی یا پھر سونا حوالے کیا جائے گا۔ اس اسکیم سے دراصل حکومت ہندوستانی گھرانوں اور مندروں کے ٹرسٹیز کے زیرقبضہ سونے کی بھاری مقدار کو باہر نکال کر بیرون ملک سے سونے کی درآمد پر قابو پانا چاہتی ہے۔ یہ اسکیم ویسے گزشتہ سال نومبر میں شروع کی گئی اور اس سے اب تک 3 ٹن سونا ڈپازٹ کیا گیا ہے اور حکومت کی نظر ماباقی 17000 ٹن سونے پر ہے۔