ہم ہندوستان کے ساتھ کوئی لفظی جھڑپ نہیں چاہتے
انسانی بنیادوں پر اُٹھایا گیا قدم نیکی کر دریا میں ڈال کے مترادف
پاکستانی دفتر خارجہ کی وضاحت
اسلام آباد ۔ 27 ڈسمبر۔(سیاست ڈاٹ کام) پاکستان میں سزائے موت پانے والے ہندوستانی شہری (جسے پاکستان نے ہندوستان کا جاسوس کہا ہے ) کلبھوشن جادھو سے ملاقات کے لئے اُن کی اہلیہ اور والدہ نے جب انٹرکام پر اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ بات کی تھی اُس وقت درمیان میں شیشے کی ایک دیوار حائل تھی ۔ بہرحال اس ملاقات پر بھی دو طرفہ ہنگامے کئے جارہے ہیں۔ ہندوستان کچھ کہہ رہا ہے اور پاکستان کچھ ۔ عرصۂ دراز سے یہ معاملہ بھی لیت و لعل میں پڑا ہوا تھا کہ کلبھوشن جادھو کو اُن کے ارکان خاندان سے ملاقات کی اجازت دی جائے گی یا نہیں ؟ بہرحال اونٹ کے کسی نہ کسی کروٹ بیٹھنے کے بعد اب یہ کہا جانے لگا ہیکہ پاکستانی حکام نے جادھو کی اہلیہ اور والدہ کے ساتھ ناروا سلوک کیا ۔ اُن کے جوتے تک اُتروالئے لیکن پاکستان نے ان الزامات کو ’’انسانیت کے مغائر‘‘ قرار دیا اور کہاکہ شاذ ونادر پیش آنے والے واقعات میں سے ایک جادھو معاملہ میں ہم نے اُن کی اہلیہ اور والدہ کی ملاقات کی اجازت دی اور پھر الزامات اور بدنامی کا ٹوکرا بھی ہمارے ہی سر ۔بقول شاعر ’’ اُلٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا ‘‘ ۔ جوتے اُتروانے کے معاملہ پر پاکستان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جس وقت اسلام آباد کے دفتر خارجہ میں دونوںخواتین جادھو سے ملاقات کے لئے آئیں اُس وقت جادھو کی اہلیہ نے جو جوتا پہن رکھا تھا اُس میں کسی دھاتی شئے کی موجودگی کا پتہ لگایا گیا تھا جس کے فوری بعد سکیورٹی عہدیداروں نے ملاقات سے قبل وہ جوتا اُتروالیا تھا۔ کل رات ایک بیان جاری کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے ہندوستان کے اُس الزام کو یکسر مسترد کردیا کہ جادھو کی اہلیہ اور والدہ کو ہراساں کیا گیا ۔پاکستان نے کہاکہ بے بنیاد الزامات عائد کرنے میں ہندوستان کا کوئی ثانی نہیں ۔ یہ تو نیکی کر دریا میں ڈال والا معاملہ بن چکا ہے ۔ جادھو کی اہلیہ کے جوتے کو سکیورٹی کی بنیاد پر اُتروایا گیا تھا کیونکہ اُس میں کوئی دھاتی شئے پائی گئی تھی اور یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جوتے میں ’’کچھ نہ کچھ ‘‘ ضرور تھا اور اس کی تحقیقات کی جارہی ہے ۔ ہم نے انھیں برہنہ پا جانے کی اجازت نہیں دی بلکہ اُن کاجوتا اُترواکر انھیں دوسرے جوتے دیئے جبکہ اُن کے جتنے بھی زیورات حاصل کئے گئے تھے ۔ ملاقات کے بعد واپس کردیئے گئے ۔ دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے یہ بات بتائی ۔ انھوں نے ایک بار پھر اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ جادھو کی اہلیہ کو دوسرے جوتے دیئے گئے تھے ۔ ہندوستان نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ پاکستان نے سکیورٹی کے نام پر ہندوستانی ثقافت اور مذہبی اقدار کو ٹھیس پہنچائی کیونکہ منگل سوترا ، چوڑیاں اور پیشانی پر لگائی جانے والی بندی بھی پاکستانی حکام نے اپنے پاس رکھ لی تھی ۔ یہاں تک کہ کپڑوں کی تبدیلی بھی کی گئی جس کی قطعی ضرورت نہیں تھی ۔ دفتر خارجہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بے معنی لفظی جنگ میں ملوث ہونا نہیں چاہتا کیونکہ ہندوستان نے جو بھی الزامات عائد کئے ہیں وہ بے بنیاد ہیں اور آخر ہم کس کس بات پر وضاحت پیش کریں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جادھو نے اپنے جرائم کا اقبال کرلیا ہے ۔ اگر ہندوستان کی تشویش سنگین نوعیت کی ہے تو پھر اس معاملہ کو جادھو کی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کے وقت ہی اُٹھایا جانا چاہئے تھا جبکہ اُس وقت میڈیا بھی آسانی سے دستیاب تھا ۔ بھئی لوہا جس وقت گرم ہو اُس وقت اگر چوٹ کی جائے تو بات بنتی ہے ۔ ہم نے جادھو کی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کے معاملہ کو انسانیت کی بنیاد پر عملی جامہ پہنایا اور اس میں شفافیت کاعنصر شامل ہے ۔لہذا اس پر شک و شبہات کرنا ایسا ہی ہے جیسے اپنے سائے سے ڈر جانا ۔ یاد رہے کہ 25 ڈسمبر کو جادھو نے جب اپنی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کی تھی تو اُن تصاویر کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بہت زیادہ کوریج ملا تھا ۔ جادھو کو ایک شیشے کے اسکرین کے پیچھے بیٹھا ہوا دکھایا گیا تھا اور اہلیہ اور والدہ اسکرین کی دوسری طرف بیٹھی ہوئی تھیں۔ انھوں نے انٹرکام کے ذریعہ بات کی اور 40 منٹ کی طویل ملاقات اور بات چیت کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی گئی ۔ جادھو کو گزشتہ سال مارچ میں گرفتار کیا گیا تھا اور جاسوسی کے الزام میں پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے انھیں سزائے موت سنائی تھی جبکہ ہندوستان نے جادھو پر لگائے گئے پاکستان کے الزام کو یہ کہکر مسترد کردیاتھا کہ جادھو کا ایران سے اغواء کیا گیا تھا جہاں وہ اپنا کاروبار چلایا کرتے تھے ۔ اغواء کرکے انھیں پاکستان لایا گیا ۔ جادھو کو بچانے کے لئے ہندوستان ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ICJ) سے رجوع ہوا تھا جس کے بعد کورٹ نے پاکستان کو جادھو کی سزائے موت کو زیرالتواء رکھنے کی ہدایت کی تھی ۔