حیدرآباد ۔ 27 ۔ جنوری : ( دکن نیوز ) : سماجی جہد کار محترمہ گیتا ہری ہرن نے کہا کہ ہندوستان کی پالیسی ملک کی آزادی کے بعد سے بین الاقوامی سطح پر غیر جانبدارانہ اصولوں پر بن رہی ہے لیکن 90 کی دہائی کے ابتداء سے حکومت ہند کی پالیسیوں میں جابر و غاصب اسرائیل کے تعلق سے ان کے رویہ میں نرمی پیدا ہونے لگی اور اس تعلق سے سابق وزیر اعظم ہند مسٹر نرسمہا راؤ کے دور حکومت میں عوامی خواہشات اور جمہوری اقدار و دستور ہند کے خلاف اسرائیل سے دوستانہ روابط استوار ہوئے جس سے انسانی اقدار کی پامالی کے ذمہ داروں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور راست طور پر دیگر ممالک بشمول ہندوستان بھی اسرائیلی ہتھیاروں کی خریداری کے ذریعہ صیہونی طاقتوں کو مضبوط کررہا ہے جو عالمی امن کے لیے خطرناک ہے جب کہ ہونا چاہئے تھا کہ ہندوستان ، تمام دنیا کے ممالک کی جانب سے اسرائیل جیسے غاصب و جابرانہ حکمرانوں کا بائیکاٹ کیا جائے اور ا س ملک سے اپنے شہریوں کو دور رکھے جیسا کہ ماضی میں ہندوستانی پاسپورٹ پر واضح تحریر کے ذریعہ پاسپورٹ کے حامل افراد کو خونریزی کے شکار افریقی ممالک میں سفر کرنے سے باز رکھا جاتا تھا یہی تحریک آج اسرائیل کے ساتھ ہونی چاہئے ۔ محترمہ گیتا ہری ہرن نے آج اپنے ایک انٹرویو میں یہ بات بھی کہی کہ ان دنوں ہندوستان کے سیاسی منظر نامہ پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک ہندوستان بڑی جدوجہد و قربانیوں کے ذریعہ انگریزوں کی غلامی و سامراجیت سے اس لیے آزاد کروایا گیا تھا کہ یہاں کے تمام باشندوں کو مساویانہ حقوق آزادی حاصل ہو وہیں وہ آزادانہ طور پر ترقی کی طرف گامزن بھی ہوسکیں اس لیے اس ملک میں قدرتی ذخائر کا ہر طرح سے بیش بہا قیمتی خرینہ موجود ہے جس کو بروئے کار لاکر یہاں کے باشندے ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں لیکن آزادی کے بعد جیسے جیسے ایام گذرتے گئے اور خود بیرونی ممالک روز افزوں سائنس و ٹکنالوجی کے ذریعہ ترقی کے منازل طئے کئے اُسی ترقی کے چکاچوند نظاروں سے ہندوستان بھی متاثر ہوئے بغیر رہ نہ سکا اور وہ ان ممالک کی ترقی کے اثر کو قبول کرتے ہوئے ان کے ساتھ اپنے طور و طریق اور منصوبہ بندیوں کو اس ملک میں راسخ کیا جارہا ہے
جس کے لیے محترمہ گیتا ہری ہرن نے بتایا کہ ہندوستان جو آزادی کے بعد اپنے جمہوری اقدار و پالیسی پروگرام کو مدون کیا تھا وہ تبدیل کررہا ہے اور ان ترقی یافتہ ممالک کی ڈگر پر چلنے کے لیے ان ممالک کے اسلوب و طریقہ کار کو راسخ کرنے پر آمادہ ہے ۔ انہوں نے ان دنوں ہندوستان کے امریکہ و اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا ذکر کیا اور ملک کے بڑے شہروں میں امریکی سفارت خانوں کے قیام پر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں وہ گرمی نہ دکھائے جو دکھا رہا ہے اور ساتھ ہی دوستی اور اسرائیلی باشندوں کے آنے و جانے پر نظر و مداخلت ہو تاکہ یہ ملک مستقبل میں بڑے پیمانے پر مسائل سے دوچار ہونے سے محفوظ رہ سکے ۔ انہوں نے کہا کہ آنجہانی مہاتما گاندھی اور ان کے رفقاء کار نے اس ملک کو انگریزوں کی غلامی اور سامراجیت سے ضرور باہر نکالا لیکن موجودہ اقتدار پر قابض طبقہ اس ملک میں ہر سطح پر مغربیت کو دیکھنا چاہ رہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ملک جس میں ہم اپنی زندگی گذار رہے ہیں ’ ملٹی کلچرل سوسائٹی ‘ کا پیش خیمہ بن چکا ہے ۔ آنجہانی گاندھی جی کا یہ خواب کہ اگر اس ملک میں انگریزی سامراجیت کے پھلنے و پھولنے کا موقع دیا جائے تو یہ ملک ترقی کے نام پر تباہی کے دہانے کھڑا ہوجائے گا اس لیے ضروری ہے کہ اس ملک کی ملٹی کلچرل سوسائٹی ( ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی و دیگر طبقات ) کو یکجٹ ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہا گذشتہ دنوں فلسطین کی سرزمین پر خونریزی کی گئی جس سے فلسطینیوں کے جان و مال اور یہاں تک معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ۔ اس پر بھی انہوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ اس پس منظر میں ہندوستان کو ہوش میں آنا چاہئے اور امریکہ و اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو منقطع کرتے ہوئے ان کی آمریت کو توڑنا ضروری ہے اور ہندوستان کو چاہئے کہ وہ ان ممالک سے کوئی معاہدہ و تجارت نہ کرے ۔۔