جئے للیتا کو سزا کا فیصلہ

جب ہوئی ان کو سزا تو یہ بھی ثابت ہوگیا
ہوگئی تاخیر لیکن زندہ ہے اِنصاف بھی
جئے للیتا کو سزا کا فیصلہ
جنوبی ہند کی ریاست ٹاملناڈو کی سابق چیف منسٹر جئے للیتا کو بالآخر کرپشن کے ایک قدیم مقدمہ میں سزا سنادی گئی۔ انہیں اس مقدمہ میں خاطی قرار دینے کے بعد چار سال قید اور 100 کروڑ روپئے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ہے۔ سزا سنائے جانے کے بعد جئے للیتا کو جیل بھی بھیج دیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ 18 سال قدیم ہے جب وہ پہلی مرتبہ ٹاملناڈو ریاست کی چیف منسٹر بنی تھیں۔ اس وقت ان کی قریب ترین دوست سمجھی جانے والی ششی کلا نٹراجن اور ان کے دیگر ساتھیوں پر کرپشن کے کئی الزامات عائد کئے گئے تھے۔ جئے للیتا نے اس وقت اپنے متبنی فرزند سدھاکرن کی شادی پر بھی انتہائی بھاری رقومات خرچ کی تھیں۔ اس پر بھی کئی گوشوں نے تنقیدیں کی تھیں۔ جئے للیتا کو پہلی مرتبہ اقتدار ملا تھا اور ان کے ساتھیوں نے کئی کام ایسے کئے تھے جن کے سیاسی اثرات مرتب ہونے لازمی تھے اور انتخابات میں ان کی پارٹی کو شکست ہوئی تھی۔ شکست کے بعد ان کے خلاف مقدمات درج ہوئے اور انہیں مشکل حالات کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ ویسے بھی جئے للیتا کا سیاسی کیریئر کئی طرح کے اُتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے۔ ایک اداکارہ سے ابھرتے ہوئے انہوں نے ایک ریاست کی خاتون آہن کا اعزاز حاصل کیا ہے اور کئی اُتار چڑھاؤ کامیابی کے ساتھ طئے کئے ہیں۔ یہ ان کی شخصیت کا اثر تھا، تاہم کرپشن کے معاملہ میں وہ عدالتوں کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں اور بالآخر سزا پاکر انہیں جیل منتقل ہوجانا پڑا ہے۔ جئے للیتا کے مقدمہ میں جو فیصلہ عدالت نے سنایا ہے وہ انتہائی اہمیت کا حامل کہا جاسکتا ہے۔ اس فیصلے کے ٹاملناڈو کی سیاست پر اثرات مرتب ہونگے ہی تاہم ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوگیا کہ سیاستدان بھی قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتے اور انہیں بھی اپنے کئے کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ سیاستدانوں کے خلاف مقدمات درج تو ہوتے ہیں لیکن وہ اس سے بچ نکلنے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔ جئے للیتا کے معاملہ میں ایسا نہیں ہو پایا ہے۔ یہ بات اب واضح ہوگئی کہ سیاستدان چاہے کسی بھی عہدہ پر فائز کیوں نہ ہوں انہیں بھی ملک کے قانون کے مطابق سزا مل سکتی ہے اور انہیں بھی اپنے غلط کاموں کی پاداش میں جیل کی ہوا کھانے پر مجبور ہونا پڑسکتا ہے۔ جئے للیتا کے مقدمہ میں جو فیصلہ آیا ہے اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سیاستدانوں کو بھی اپنے عوامی و دستور ی عہدوں کا بیجا استعمال کرتے ہوئے من مانی کرنے اور اپنی جیبیں بھرنے کے عمل سے روکا جاسکتا ہے۔ انہیں بھی اپنے عمل کا جواب دینا پڑتا ہے۔ یہ فیصلہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ ایک طویل جدوجہد کے بعد سنایا گیا ہے۔ اس سارے مقدمہ میں کئی مرتبہ الزامات عائد کئے گئے کہ اس میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں اور شواہد و ثبوت مٹانے کی کوششیں بھی ہوئی ہیں۔ خود عدالتوں میں یہ احساس ظاہر کیا گیا تھا کہ جئے للیتا نے دوسری مرتبہ چیف منسٹر بننے کے بعد اس مقدمہ کی پیشرفت میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان ساری کوششوں کے نتیجہ میں اس مقدمہ میں فیصلہ سنانے کیلئے 18 سال کا طویل وقت درکار ہوا ہے۔ حالانکہ یہ مقدمہ ایک سنگین نوعیت کا تھا اور اس کے ملزمین کے عوامی عہدے بھی بہت بڑے تھے اس کے باوجود اتنا طویل وقت انصاف رسانی کے عمل کیلئے درست نہیں کہا جاسکتا۔ اس طویل وقت کے باوجود عدالت نے جو فیصلہ سنایا ہے اس سے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ تاخیر ہی سے صحیح لیکن انصاف کیا گیا ہے اور قانون نے بالآخر سیاستدانوں کے خلاف بھی اپنا کام موثر انداز میں انجام دیا ہے۔ اس سے عوامی سطح پر بھی کرپشن کے خلاف رائے عامہ ہموار ہوسکتی ہے۔ خود سیاستدانوں میں بھی اپنے عوامی و دستوری عہدوں کا بیجا استعمال کرتے ہوئے من مانی کرنے کے رجحان کو روکنے میں کرناٹک کی عدالت کا فیصلہ انتہائی معاون اور مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ گذشتہ کچھ عرصہ میں انا ہزارے کی مخالف رشوت مہم کے نتیجہ میں کرپشن کے خلاف ہندوستانی عوام نے بیزارگی کا اظہار کیا ہے۔ انا کی تحریک پر سارے ملک میں کرپشن کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا تھا۔ اس کے علاوہ انا ہزارے کی مہم کے نتیجہ ہی میں ملک میں لوک پال کیلئے قانون سازی کرنی پڑی تھی اور اس میں بھی ملک کے عوام نے حصہ لیتے ہوئے اپنے شعور کا مظاہرہ کیا تھا۔ جئے للیتا نے عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ وہ ایسا کرنے کا حق رکھتی ہیں اور انہیں اس کی مکمل آزادی بھی حاصل ہے لیکن ان کی پارٹی کے کارکنوں نے جس طرح سے رد عمل کا اظہار کیا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ کسی عدالتی فیصلے پر سڑکوں پر اُترکر احتجاج کرنا اور توڑ پھوڑ و آگ زنی کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ تاہم بحیثیت مجموعی کرناٹک کی عدالت کا فیصلہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا احترام کیا جانا چاہئے۔