تیونس 31 جولائی ( سیاست ڈاٹ کام ) تیونس کے صدر نے آج ملک میں نافذ ایمرجنسی میں مزید دو ماہ کی توسیع کردی ہے جبکہ وہاں پرتشدد تخریب کاری میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ گذشتہ ایک مہینے کے دوران تخریب کاری کے واقعات میں 38 سیاح ہلاک ہوگئے ہیں ۔ انہیں ایک بیچ پر نشانہ بنایا گیا تھا ۔ تیونس کی صدارت کے فیس بک پیج پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے اسپیکر اور ملک کے وزیر اعظم سے مشاورت کے بعد ایمرجنسی کی مدت میں مزید دو ماہ کی توسیع کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا اطلاق پیر سے ہوگا ۔ ایک ماہ قبل تیونس نے ایک واحد بندوق بردار کی جانب سے خطرناک حملہ ایک بیچ ریسارٹ پر کیا گیا تھا جس کے نتیجہ میں کم از کم 38 سیاح ہلاک ہوگئے تھے جن میں اکثریت برطانوی شہریوں کی تھی ۔ ماہ مارچ میں بھی سیاحوں پر ایسا ہی ایک حملہ کیا گیا تھا ۔ تیونس پر اکثر و بیشتر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اس نے سیاحتی مقامات پر سکیوریٹی پر توجہ نہیں دی ہے ۔
گذشتہ ماہ ہوئے حملہ کے بعد برطانیہ نے اپنے شہریوں سے کہا تھا کہ وہ تیونس سے تخلیہ کردیں۔ تیونس کے صدر بیجی سائد عیسبسی نے 4 جولائی کو ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے ملک میں سیاحتی مقامات پر اضافی تین ہزار عہدیداروں کو متعین کردیا تھا ۔ ایمرجنسی کے تحت فوج کو سیاحتی مقامات کی حفاظت پرمتعین کیا گیا تھا اور اسے یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اگر خطرہ محسوس کریں تو فوری فائرنگ کردیں اور ضروری سمجھیں تو کسی کو ہلاک بھی کردیا جائے ۔ یہاں تین سے زائد افراد کے اجتماع پر امتناع عائد کردیا گیا تھا تاہم اس پر شائد ہی عمل ہو رہا ہے ۔ گذشتہ ہفتے کے دوران تیونس کی سکیوریٹی فورسیس نے کئی شہروں میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر دھاوے کئے تھے اور درجنوں افراد کو گرفتار کیا تھا ۔ ان کارروائیوں میں کم از کم ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا ۔ تیونس کی پارلیمنٹ نے تقریبا اتفاق رائے سے ایک نئے انسداد دہشت گردی قانون کو 25 جولائی کو منظوری دی تھی جس کا مقصد عسکریت پسند گروپس کے خلاف جدوجہد کرنا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں کچھ اندیشے بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ حقوق انسانی کے گروپس کی جانب سے اس قانون کی منظوری پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا ۔