22 برس سے گجرات پر حکومت کرنے والی بی جے پی کو تین نوجوانوں کی وجہ سے پسینے چھوٹ رہے ہیں ، کئی انتخابی جنگیں جیتنے والے مودی کیلئے یہ تینوں نوجوان تیز دھاری تلوار بن گئے ہیں ، درحقیقت 1985 میں نریندر مودی سیاست میں قدم رکھتے وقت ان تینوں میں سے ایک پیدا ہی نہیں ہوا تھا تو دوسرا ماں کی گود میں تھا تو تیسرا اسکولی طالب علم تھا اور یہ تینوں نوجوان ملکی وزیراعظم کیلئے ہی حلق سے نہ اُترنے والا کانٹا بن گئے ہیں ۔ ملک میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد عالمی سطح پر کامیابی حاصل کرنے کیلئے بیرونی ممالک کے دورے میں مصروف وزیراعظم مودی کو ان تینوں نوجوانوں نے ملکر انتخابی شکست کے خوف کے گہرے کھڈ میں ڈھکیل دیا ہے اور ایک ماہ سے مودی کو آبائی ریاست میں قید کر رکھا ہے ، درحقیقت یہ تینوں یقین کامل میں مودی کے وارثین ہیں مگر یہ تینوں کانگریس کیلئے زہیِ نصیب ہیں ۔ 2012 ء کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ووٹوں کے تناسب کا فرق 9% تھا ۔ اس وقت بی جے پی 115 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی مگر کئی مقامات پر صرف چند ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی ۔ گزشتہ پانچ برسوں میں بی جے پی کے ووٹوں کے تناسب میں اضافہ کیلئے کوئی کارنامہ نہیں ہے ، مگر یہ تینوں نوجوان کانگریس کے ساتھ ملکر ان 9 فیصد ووٹوں کو حاصل کرسکتے ہیں ۔ درحقیقت یہ تینوں نوجوان ساڑھے چار فیصد بھی حاصل کرلیں تو کافی ہے جس سے اقتدار کانگریس کے حصہ میں آسکتا ہے ۔ آخر یہ تینوں نوجوان کون ہیں ؟ ان کی شناخت کیا ہے ؟ ان تینوں میں ایک جگنیش میوانی 40 سالہ ایڈوکیٹ دلت طبقات کے جہدکار ، آبائی ریاست میں چار دلت نوجوانوں کو غیرقانونی گائیوں کی منتقلی کے الزام میں زبردست مارپیٹ کے واقعہ کے بعد اچانک ملکی اُفق پر نمودار ہوئے ، گجرات میں ان طبقات کا قابل لحاط ووٹ بنک ہے ، الپیش ٹھاکور کے ساتھ جگنیش بھی کانگریس ٹکٹ پر میدان انتخاب میں برسرپیکار ہیں۔ ان دونوں کو مقامی کانگریس قائدین ٹکٹ دینے کی مخالفت کرنے کے باوجود کانگریس ہائی کمان نے انہیں ٹکٹ دیا ہے۔ دوسرا نوجوان الپیش ٹھاکور ہے جس کی عمر 35 برس ہے اور اس طبقہ کا گجرات میں 22% ووٹ بنک ہے ، حالیہ دنوں کانگریس میں شمولیت اختیار کی ہے ۔ گجرات جہاں شراب پر پابندی عائد ہے وہاں او بی سیز میں شراب کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے بی جے پی حکومت کو شراب پر پابندی کے قوانین میں سختی لانا پڑا ۔ گجرات کے 18,000 قریوں میں سے 5,000 قریوں میں الپیش ٹھاکور کی قیادت میں او بی سی تنظیمیں زبردست اثر رکھتی ہیں اور الپیش نے اپنے مذہب کے بڑے لیڈرس کی میٹنگ میں ان سے اجازت لیکر ہی کانگریس میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اور تیسرا نوجوان 24 سالہ ہاردک پٹیل ہے ، گجرات میں بہت بڑی طاقت رکھنے والے پٹیل سماج کا ہیرو ہے ۔ ریاستی آبادی میں 14% ہونے والے پٹیل طبقہ کیلئے تحفظات کی فراہمی کے مطالبہ پر شروع ہونے والی جنگ کے سپہ سالار بن کر اُبھرے ہیں ، یہاں تک کہ بی جے پی میں موجود پٹیل طبقہ کے لیڈرس بھی ہاردک پر ناز کرتے ہیں ۔ ہاردک پٹیل کا صرف ایک ہی مقصد ہے یعنی ان کے مطالبہ کو نہ ماننے والی بی جے پی حکومت کا خاتمہ اور انہیں اس بات سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ کانگریس تحفظات دیتی ہے یا نہیں ، آگ برسانے والی ہاردک کی تقاریر بی جے پی کیلئے بُرا خواب ثابت ہورہی ہیں یہاں تک کہ سیکس سی ڈیز کے معاملہ کو بھی انہوں نے اپنے حق میں کامیاب طریقہ سے استعمال کرلیا ، 18 افراد پر مشتمل پٹیل جہدکار تنظیم کے نصف افراد کو اگرچہ بی جے پی نے اپنے خیمہ میں شامل کرلیاہے اس کے باوجود جدوجہد میں کوئی فرق نہیں آیا۔ 2015 کے پاٹیدار تحفظات کی جدوجہد میں شرکت کرنے والے 15 افراد کو حکومت اور پولیس نے گولیوں سے بھون دیاہے لہذا اس حکومت کو تخت سے تختہ پر لٹانا ضروری ہے ۔ ہادرک کی اس آواز پر پاٹیدار سماج مثبت انداز میں آگے بڑھ رہا ہے ۔ دیڑھ سال میں ہاردک نے 250 ریالیوںمیں شرکت کی ہے اور شہروں میں ہونے والی ریالیوں میں10 تا 40 ہزار افراد شرکت کررہے ہیں ۔ گجرات میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب انہیں کی حکومت ہوا کرتی ہے اور 1985 ء میں پہلی مرتبہ کانگریس قائد مادھو سنگھ سولنکی نے پٹیل سماج کے خلاف دلت ، آدی واسی ، ہریجن اور مسلم سماج کے اتحاد کے ذریعہ حکومت پر قبضہ جمایا تھا ۔ اس وقت سے پاٹیدار سماج بی جے پی کی تائید میں چٹارہا ، اتحاد کے ساتھ ووٹ دینا پاٹیدار سماج کی طاقت ہے اور اب یہی طبقہ بی جے پی کے خلاف ہے جو مودی کیلئے بڑی پریشانی کا سبب ہے ، 70اسمبلی حلقوں میں پائیدار سماج کے ووٹ فیصلہ کن ہے ۔