تین طلاق بل کی منظوری

لیکے چُٹکی میں نمک آنکھ میں جادو بھر کے
وہ مچلتے ہیں کہ ہم زخم جگر دیکھیں گے
تین طلاق بل کی منظوری
مرکز کی نریندر مودی حکومت بالآخر ایک نشست میں تین طلاق کو تعزیری جرم قرار دینے والے بل کو منظوری دلانے میں کامیاب ہوگئی ہے اور اب بل کا قانونی شکل اختیار کرنا طئے ہے ۔ جس وقت سے مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں حکومت تشکیل پائی ہے اس وقت سے ہی ایسے مسائل کو اٹھانے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جن کے ذریعہ سماج میں اتفاق کی بجائے نفاق کی صورتحال پیدا ہوتی ہو ۔ حکومت حالانکہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرہ پر کام کر نے کا دعوی کرتی ہے لیکن اس کا عمل ترقی کے معاملہ میں بالکلیہ طور پر صفر ہے ۔ وہ ملک کو ترقی دلانے کے امور کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے نزاعی اور اختلافی مسائل پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے اور ان مسائل کو اس ڈھنگ سے پیش کیا جا رہا ہے کہ ملک کے عوام کی توجہ ترقیاتی اور معاشی امور پر مبذول ہونے نہ پائے ۔جہاں تک طلاق کا مسئلہ ہے یہ شرعی قوانین کی رو سے بھی انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے ۔ شریعت نے ایک نشست میں تین طلاق دینے کی ممانعت بھی کی ہے حالانکہ ایسا کرنے سے شرعی اعتبار سے تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں لیکن اس سے ممانعت ضرور کی گئی ہے اور اسے انتہائی ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے ۔ مسلمانوں میں افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ معمولی سی باتوں کو وجہ بناتے ہوئے معاملات طلاق تک پہونچ رہے ہیں اور ان معاملات کو شرعی عدالتوں یا دارالافتا سے رجوع کرنے کی بجائے پولیس اور عدالتوں سے رجوع کیا جانے لگا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتوں کو بھی اس کے استحصال کا موقع مل گیا اور خاص طور پر مودی حکومت نے تو مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے کافی دور رس حکمت عملی تیار کی ہوئی ہے جس پر عمل آوری کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے ۔ کبھی یکساں سیول کوڈ کی بات کرنے والی حکومت اب مختلف انداز میں شرعی قوانین کو نشانہ بنانے پر تلی ہوئی ہے ۔ حکومت اپنے ارادوں اورمنصوبوں میں محض اس لئے کامیاب ہو رہی ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں نہ کوئی اتحاد ہے اور نہ کوئی اتفاق ہے ۔ انتہائی حساس نوعیت کے اور شرعی تقاضوں کے حامل مسائل پر بھی نفاق کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے اور اسی صورتحال کا نریندر مودی حکومت استحصال کر رہی ہے ۔
حکومت نے مسلمانوں کی شدید مخالفت کے باوجود اپنے چند آلہ کار مفاد پرستوں کا استعمال کرتے ہوئے یہ بل پارلیمنٹ میں منظور کروالیا ہے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلمانوں کے دیگر ذمہ دار اداروں ‘ افراد اور نمائندوں کی رائے بھی حکومت خاطر میں لانے تیار نہیں ہوئی ۔ اس مسئلہ پر خود مسلمانوں میں اختلافات ہیں اور حکومت نے اسی اختلاف سے فائدہ اٹھایا ہے ۔ حکومت اس حساس نوعیت کے مسئلہ پر سنجیدگی سے کام کرنے کی بجائے اپنے ایجنڈہ کی تکمیل کی راہ تلاش کر رہی تھی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کو یہ راہ دستیاب بھی ہوئی ۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ اس مسئلہ پر پہلے اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کرتی ۔ وہ مسلمانوں کے ذمہ داروں ‘ تنظیموں اور نمائندوں سے مشاورت کا آغاز کرتی ۔ ان کی رائے حاصل کی جاتی ۔ انہیں عام مسلمانوں میں رائے عامہ ہموار کرنے کا موقع دیا جاتا ۔ خود مسلم ادارے اور تنظیمیں اس تعلق سے مسلمانوں میں ایک رائے پیدا کرتے ہوئے اس مسئلہ کا ایسا کوئی حل دریافت کرتے کہ حکومت کو قانون سازی کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ۔ مسلمان برادری میں ایسی کوشش نہ اپنے طور پر ہوئی اور نہ حکومت نے اس سلسلہ میں کوئی پہل کرنے کی کوشش کی ۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلا کہ حکومت اپنے طور پر اس بل کو لوک سبھا میں منظوری دلانے میں کامیاب ہوگئی اور اب یہ بل راجیہ سبھا کی منظوری کے بعد صدر جمہوریہ کو دستخط کیلئے روانہ کردیا جائیگا ۔ صدر جمہوریہ ہند جیسے ہی اس بل پر دستخط کرینگے یہ بل قانون کی شکل اختیار کرلیگا۔ اس میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی ۔
حکومت کو اپنی ترجیحات کے مسئلہ پر وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت اپنی ترجیحات کے مسئلہ پر دعوے الگ کرتی ہے اور کام الگ کیا جاتا ہے ۔ وہ محض مسلمانوں میں بے چینی اور نفاق پیدا کرنے کے ایجنڈہ پر ہی عمل کرتی نظر آر ہی ہے ۔ حکومت کا دعوی ہے کہ مسلم خواتین اور بہنوں کو انصاف دلانے کے مقصد سے یہ قانون بنایا گیا ہے لیکن حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت تھی کہ مسلمانوں میں طلاق کی شرح دوسری برادریوں کی بہ نسبت بہت کم ہے ۔ حکومت ملک کی تمام خواتین کو انصاف دلانے کی کوشش کرتی تو بات سمجھ میں بھی آتی لیکن حکومت نے محض اپنے ایجنڈہ کی تکمیل کو ترجیح دی اور حکومت کا یہ رویہ اور اس کا یہ عمل انتہائی افسوسناک ہے ۔ مسلمانوں میں کم از کم اب اتفاق اور اتحاد کیلئے پہل کرنے کی ضرورت ہے اور اگر اب بھی ایسا نہیں کیا جاتا تو مستقبل میں ایسے مزید قوانین کیلئے پہل ہوسکتی ہے۔