وقف بورڈ قواعد کی خلاف ورزی کا الزام، اسپیشل آفیسر وقف بورڈ شیخ محمد اقبال کی پریس کانفرنس
حیدرآباد۔یکم مارچ، ( سیاست نیوز) وقف بورڈ نے ریاست کی تین اہم درگاہوں کے متولیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے معطلی اور تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ ان درگاہوں میں حضرات یوسفین ؒ نامپلی، درگاہ حضرت آستانہ مخدوم الٰہیؒ ( امین پیر ؒ) کڑپہ اور درگاہ بابا فخر الدین ؒ پینوکونڈہ ضلع اننت پور شامل ہیں۔ ان متولیوں کے خلاف وقف قواعد کی خلاف ورزی کی شکایات پر بورڈ نے یہ کارروائی کی اور چیف ایکزیکیٹو آفیسر کے ذریعہ اندرون 10دن تحقیقات کی تکمیل کا فیصلہ کیا ہے۔ اسپیشل آفیسر وقف بورڈ شیخ محمد اقبال ( آئی پی ایس) نے آج پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ الزامات ثابت ہونے پر متولیوں کے خلاف فوجداری کے مختلف دفعات کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ درگاہ یوسفینؒ کے متولی فیصل علی شاہ، آستانہ مخدوم الٰہیؒ کڑپہ کے متولی سید شاہ عارف محمد محمدالحسینی چشتی اور درگاہ بابا فخر الدین ؒ پینو کونڈہ کے متولی تاج الدین کی عارضی طور پر معطلی کے احکامات جاری کئے گئے ہیں اور ان تینوں درگاہوں کا انتظام وقف بورڈ راست اپنی نگرانی میں لے گا اور ایکزکیٹو آفیسرس کے ذریعہ درگاہوں کے انتظامات چلائے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ تینوں متولی وقف بورڈ کو سالانہ حسابات پیش کرنے اور آمدنی کے مطابق وقف فنڈ کی ادائیگی میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ درگاہ یوسفینؒ میں غیر مجاز تعمیرات اور قبرستان میں تدفین کیلئے بھاری رقم وصول کرنے کی بھی شکایات ملی ہیں۔ تحقیقات کی تکمیل تک تینوں متولی معطل رہیں گے۔ انہوں نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ حال ہی میں کڑپہ کی درگاہ کیلئے حکومت کی جانب سے گرانٹ اِن ایڈ کے طور پر مختص کردہ 2کروڑ اور درگاہ یوسفینؒ کیلئے مختص کردہ 50لاکھ روپئے کی اجرائی روک دی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ آستانہ مخدوم الٰہی ؒ کے متولی نے گذشتہ 14برسوں میں وقف فنڈ کے طور پر صرف 35ہزار روپئے ادا کئے ہیں اور گذشتہ تین سال سے انہوں نے وقف فنڈ بھی ادا نہیں کیا۔ وہ سالانہ صرف 500روپئے ادا کررہے ہیں حالانکہ اس درگاہ کی آمدنی کافی زیادہ ہے کیونکہ وہاں ملک کی اہم شخصیتیں حاضری دیتی ہیں۔اسی طرح درگاہ یوسفینؒ کے متولی نے گذشتہ پانچ برسوں میں صرف 82ہزار روپئے ہی وقف فنڈ ادا کیا ہے۔ شیخ محمد اقبال نے کہا کہ کڑپہ میں واقع درگاہ کی اراضی کو غیر قانونی طور پر 2011ء میں وقف بورڈ نے وقف علی الاولاد قرار دے دیا
جبکہ وقف ایکٹ کے تحت اس طرح کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایک مرتبہ وقف کی گئی اراضی ہمیشہ ہی وقف ہوتی ہے اور اسے وقف علی الاولاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وقف بورڈ نے 2011ء میں اس سلسلہ میں جو قرارداد منظور کی ہے اسے منسوخ کردیا گیا ہے اور اس معاملہ کی جانچ کی جارہی ہے۔ شیخ محمد اقبال نے بتایا کہ پہاڑی شریف میں واقع سروے نمبر 90کے تحت معین آرمس کو 10ایکر اراضی لیز پر دی گئی تھی۔ اسکول اور ہاسٹل کے نام پر یہ اراضی حاصل کی گئی لیکن اس کا استعمال گودام کیلئے کیا جارہا تھا۔2007ء میں اراضی کی لیز ختم ہوگئی لہذا وقف بورڈ نے لیز منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی سروے نمبر کے تحت عبداللہ بن عود کو مامڑپلی میں 2ایکر 6گنٹے اراضی لیز پر دی گئی تھی۔ یہ لیز بھی وقف بورڈ نے منسوخ کردی۔ انہوں نے بتایا کہ مجلس بلدیہ، قلی قطب شاہ اربن ڈیولپمنٹ اتھاریٹی، واٹر ورکس، مختلف محکمہ جات میٹرو ریل، میونسپلٹیز اور سرکاری محکمہ جات کی جانب سے شہر اور اضلاع میں اوقافی اراضی حاصل کی گئی لیکن ان کا معاوضہ ادا نہیں کیاگیا۔اس طرح کی اراضیات کی نشاندہی کی جارہی ہے
تاکہ معاوضہ کے حصول کیلئے ان اداروں سے نمائندگی کی جاسکے۔انہوں نے بتایا کہ انوارالعلوم تعلیمی اداروں کے معاملہ میں ہائی کورٹ نے منیجنگ کمیٹی کو ہدایت دی ہے کہ وہ وقف بورڈ کی نوٹس کا جواب دیں۔ انہوں نے کہا کہ انوارالعلوم تعلیمی ادارے وقف ہیں اور بورڈ کے پاس مکمل ریکارڈ موجود ہے۔ منیجنگ کمیٹی نے خود یہ ادارے وقف کئے تھے۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اراضی وقف گزٹ میں شامل ہونے کے اندرون ایک سال اسے چیلنج کیا جاسکتا ہے بصورت دیگر وہ ہمیشہ کیلئے وقف قرار پاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہاڑی شریف کی اراضی کے معاملہ میں چارمینار ایجوکیشن سوسائٹی نے نوٹس کا جواب داخل کیا ہے جس کا جائزہ لیا جارہاہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ کسی شخصیت یا ادارہ کے خلاف نہیں ہے بلکہ ناجائز قبضوں کی برخواستگی اور منشائے وقف کے مطابق جائیدادوں کے استعمال کے ذریعہ آمدنی میں اضافہ کرنا ان کی اولین ترجیح ہے۔