تیار غذائی اجناس اور عوامی صحت

وہ زہر بیچتے ہیں غذاؤں کے نام پر
پیسے کی ان کو فکر ہے کیا غم عوام کا
تیار غذائی اجناس اور عوامی صحت
بدلتے وقتوں نے ہندوستانی شہریوں کی غذائی ترجیحات میںبھی تبدیلیاں پیدا کردی ہیں۔ ویسے تو ساری دنیا میں صحت کے تعلق سے بہت زیادہ احتیاط برتی جا رہی ہے اور غذائی عادتوں کے تعلق سے بھی وقفہ وقفہ سے کچھ نہ کچھ نئی رپورٹس اور سروے منظر عام پر آتے ہیں۔ غذائی عادات اور ترجیحات کا انسانی صحت سے بھی تعلق رہا ہے اوراس تعلق سے کئی رپورٹس موجود ہیں۔ ایک وقت تھا جب غذائی عادات پر شائد ہی کوئی بحث کی جاتی تھی لیکن گذرتے وقت کے ساتھ یہ دعوے عام ہونے لگے کہ عوام میں غذائی عادات کے تعلق سے شعور بیدار ہو رہا ہے اور وہ بہت غور و خوض کے بعد غذا کا انتخاب کرنے لگے ہیں۔ جب وقت تیزی سے بدلنے لگا تو عوام کی مصروفیات بھی بڑھنے لگیں اور مصروفیات کے نام پر بازاروں سے تیار غذائی اجناس کا حصول اور استعمال عام ہوگیا ۔ لاکھوں خاندان ایسے ہیں جہاں خواتین بھی برسر روزگار ہیں اور مرد حضرات بھی ملازمت کرتے ہیں ۔ ایسے میں زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانے کے نام پر بازار میں تیار غذائی اجناس کا استعمال بڑھتا ہی جا رہا تھا ۔ عوامی رجحا ن کو دیکھتے ہوئے کئی کمپنیاں ایسی غذائی اجناس مارکٹ میں روشناس کرواتی رہیں جن کو بہت آسانی سے اور انتہائی کم وقت میں تیار کرکے استعمال کیا جاسکتا ہے اور پیٹ کی آگ بجھائی جاسکتی ہے ۔ ایسے میں میگی کو صرف دو منٹ میں تیار کرنے کے دعوی کے ساتھ جو تشہیر ہوئی اس نے سارے ہندوستان کو متاثر کیا تھا اور اس کے استعمال میں بھی زبردست اضافہ ہوگیا تھا ۔ اب اچانک ہی میگی کے مضر صحت ہونے کا پتہ چلا ہے اور اس میں کچھ ممنوعہ اشیا کے ایک مقررہ حد سے زیادہ استعمال کا انکشاف ہو رہا ہے ۔ ملک کی کئی ریاستوں میں میگی کی فروخت پر امتناع عائد کردیا گیا ہے ۔ خود مرکزی حکومت نے بھی اس کے معائنے کروائے ہیں اور انہیں استعمال کیلئے غیر مناسب قرار دیا گیا ہے ۔ مرکزی وزیر صحت مسرٹ جے پی ندا نے آج واضح کیا کہ حکومت ہند صحت کے متعلق امور پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریگی اور جہاں تک میگی یا نیسلے کا سوال ہے یہاں حفظان صحت کے مقررہ قوانین کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ اب تو خود مرکزی حکومت نے واضح کردیا ہے کہ میگی استعمال کیلئے محفوظ نہیں ہے ۔
یہاں بات صرف میگی کی نہیں ہے بلکہ بازاروں میں استعمال کیلئے تیار ملنے والی تقریبا تمام غذائی اجناس کی ہے ۔ ان میںایسی اشیا کے استعمال کے شبہات عام بات ہیں جو ذائقہ کو بڑھانے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں لیکن ان سے صحت متاثر ہوتی ہے ۔ بیشتر کمپنیاں محض اپنے کاروبار کو فروغ دینے کیلئے ذائقہ کو بڑھانا چاہتی ہیں لیکن ان کے سامنے عوامی صحت کا مسئلہ نہیں ہوتا حالانکہ یہ ایک انتہائی حساس اور اہمیت کا حامل مسئلہ ہے ۔ مارکٹوں میں ایسی بے شمار غذائی اجناس پائی جاتی ہیں جو حالانکہ استعمال کے معاملہ میں بہت مقبول ہیں لیکن ان کے عتلق سے یہ شبہات بہت زیادہ ہیں کہ ان میں مضر صحت اشیا کا استعمال ہوتا ہے ۔ چاہے یہ ٹھنڈے مشروبات ہوں یا اسناکس کے نام پر ملنے والی اشیا ہوں یا پھر معمولی سمجھے جانے والے چپس ہوں یا پھر خواتین میں زیبائش کیلئے استعمال ہونے والی قیمتی اشیا ہوں ۔ ان سب میں کسی نہ کسی ایسی شئے کے استعمال کے شبہات ہیں جن سے انسانی صحت متاثر ہوتی ہے ۔ خاص طور پر سوڈیم کا استعمال غذائی اجناس میں ذائقہ کیلئے ہوتا ہے لیکن اس کی ایک مقررہ حد ہونی چاہئے ۔ ایک حد کے باہر سوڈیم کا استعمال انسانی صحت کیلئے مضر ہوتا ہے اس سے سر درد کا عارضہ لاحق ہوسکتا اور موٹاپا بھی ہوسکتا ہے ۔ امریکہ ہو یا دوسرے ممالک ہوں وہاں متعلقہ محکموںکی جانب سے اس بات کویقینی بنایا جاتا ہے کہ ایسی اشیا کا استعمال ایک حد کے اندر ہو جن کے زیادہ استعمال سے انسانی صحت متاثر ہوتی ہے ۔ ان اشیا کے تعلق سے وقفہ وقفہ سے معائنے اورٹسٹ وغیرہ بھی کئے جاتے رہتے ہیں۔
اب جبکہ ہندوستان میں کسی ایک شئے کے تعلق سے شبہات پیدا ہوئے اورتحقیقات میں یہ شبہات درست ثابت ہوئے ہیں تو حکومت کو صرف اس کے تعلق سے ہی اقدامات کرتے ہوئے بری الذمہ ہونے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے بلکہ جاریہ کارروائیوں کے دوران بازار میں ملنے والی مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تیار غذائی اشیا اور اسناکس و مشروبات وغیرہ کی تفصیلی جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے تعلق سے بھی عوام کے ذہنوں میں جو شبہات پائے جاتے ہیں ان کی حقیقت بھی منظر عام پر آسکے اور اگر واقعی کچھ مضر صحت اشیا کا استعمال ہوتا ہو تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے ۔ ملک کے عوام کو بھی اپنی غذائی عادات اور ترجیحات کو کا تعین کرتے ہوئے انتہائی احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔ محض تن آسانی اور وقت بچانے کی خاطر انتہائی اہمیت کے حامل حفظان صحت کے اصولوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ۔