تھرما میٹر کی کہانی

بچو!مشہور ماہر فلکیات رومر نے 1794 ء میں سب سے پہلے پارہ بھرا ہوا تھرما میٹر تیار کیا ۔ ڈینیل فارن ہائیٹ نے نشان بھی لگائے اور آلے کو برف اور نمک کی ایک مقر رہ محدود مقدار میں ڈالا۔اس کے ساتھ ہی جس نقطہ پر پارہ سب سے نیچے پہنچ گیا وہاں پر صفر کا نشانہ قائم کیا۔ اس کے بعد اس نے جسم کی حرارت کوناپا اور 94 پیمانہ حرارت کی اکائیاں قائم کیں ۔
اس طرح ہمارے موجودہ تھرما میٹر میں درجہ کی ترتیب دی گئی ۔ آج بھی فارن ہائیٹ کی ترتیب والے تھرما میٹر ہمارے روز مرہ کے استعمال میں ہیں لیکن سنٹی گریڈ درجہ ترتیب والا تھرما میٹر کو لو لمیس نے اٹھارہویں صدی کے آخر میں رائج کیاتھا جو بہت زیادہ بہتر پایا گیا ۔ اس کا استعمال تمام دنیا میں ہورہا ہے ۔ آج بجلی کے تھرما میٹر زیادہ تیز حرارت کو ناپنے کیلئے بہت عام ہیں۔اب ہندوستان میں الیکٹرانک طبی تھرما میٹر بنایا گیا ہے ۔ اس تھرما میٹر کا استعمال کرنے کے دوران عام تھرما میٹر کی طرح جھٹکا نہیں دینا پڑا ۔ اس آلہ کے ذریعہ کمرے کی حرارت صفر سے پچاس ڈگری سنٹی گریڈ تک معلوم جاسکتی ہے ۔ یہ تپش پیما نہایت کارگر ہے اور جیسے ہی مریض کا درجہ حرارت خطرے کے نشان کو چھوتا ہے تو تیمارداری کرنے والے لوگوں کو یہ تھرما میٹر خبردار کرتا ہے ۔ اس تھرما میٹر کو ہم تھرما لرٹ کے نام سے پکارتے ہیں ۔ تھرما میٹر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی پن کو بدن کے جس حصے پر رکھ دیں وہاں کی حرارت کو فورا معلوم کرسکتے ہیں جبکہ عام تھرما میٹر میں حرارت کو معلوم کرنے میں کم سے کم ایک سیکنڈ لگتا ہے ۔لیکن ان تمام تھرما میٹر کی ایجاد کے باوجود کم قیمت کا درجہ حرارت بتانے والا فارن ہائیٹ تھرما میٹر سب سے آگے ہے اور اس سے کوئی آگے نہ جاسکا ۔ یہی وجہ ہے کہ تھرما میٹر کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی ۔