توڑ پھوڑ کا منصوبہ رکھنے والے چیف منسٹر الجھن کا شکار

نئے سکریٹریٹ کی تعمیر کا مسئلہ تنازعہ کا شکار ، ہائی کورٹ میں حکومت کا موقف اچانک تبدیل
حیدرآباد ۔ یکم   نومبر  (سیاست نیوز) چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے گزشتہ دو برسوں میں کئی فیصلے کئے لیکن کچھ دن بعد ان سے دستبرداری اختیار کرلی۔ ایرہ گڈہ میں نئے سکریٹریٹ کی تعمیر اور عثمانیہ ہاسپٹل کے انہدام جیسے فیصلوں کو چیف منسٹر نے واپس لے لیا۔ اب موجودہ سکریٹریٹ کی عمارتوں کے انہدام کا مسئلہ بھی چیف منسٹر کے لئے الجھن کا باعث بن چکا ہے اور نئے سکریٹریٹ کی تعمیر کا منصوبہ آغاز سے قبل ہی تنازعہ کا شکار بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ اب جبکہ یہ معاملہ حیدرآباد ہائی کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔ حکومت کیلئے موجودہ عمارتوں کا انہدام اور نئے عصری سکریٹریٹ کامپلکس کی تعمیر کا کام آسان نظر نہیں آتا۔ ایک طرف چیف منسٹر نے نئے کامپلکس کی تعمیر کیلئے ڈیزائین کی تیاری کا کام ممبئی کے ممتاز آرکیٹکٹ کے حوالے کیا ہے تو دوسری طرف آندھراپردیش حکومت کو الاٹ کی گئی عمارتوں کے حصول کی کارروائی شروع کی گئی جس کیلئے گورنر ای ایس ایل نرسمہن سے ایک سے زائد مرتبہ نمائندگی کی جاچکی ہے۔ حکومت نے سکریٹریٹ میں موجود تمام دفاتر کے تخلیہ کی ہدایات جاری کی ہیں، جس کے تحت وزراء اور سکریٹریز اپنے لئے دیگر مقامات پر دفاتر کی تلاش میں ہے۔ ایسے وقت جبکہ سکریٹریٹ کے تخلیہ کی تیاریاں شروع ہوچکی ہے، حکومت نے اچانک ہائیکورٹ میں اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے واضح کیا کہ موجودہ عمارتوں کے انہدام کی کوئی تجویز حکومت کے زیر غور نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلہ میں کوئی پیشرفت کی گئی۔ حکومت کے اس موقف کو توقع کے برخلاف نہیں کہا جاسکتا کیونکہ سکریٹریٹ کی موجودہ عمارتوں کے انہدام کے سلسلہ میں خود اعلیٰ عہدیداروں میں اختلاف رائے دیکھا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بعض عہدیداروں نے اس سلسلہ میں چیف منسٹر کو اپنی رائے سے واقف کرایا اور موجودہ تمام عمارتوں کے انہدام کو مشکل عمل قرار دیا تھا ۔ چیف منسٹر جو اپنے کسی بھی فیصلہ پر عمل آوری کے سلسلہ میں بضد دکھائی دیتے ہیں، انہوں نے کسی بھی صورت میں نئے سکریٹریٹ کی تعمیر کا من بنالیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قانونی کشاکش اور عوام میں تعمیرات کے خلاف ناراضگی کے امکانات کو دیکھتے ہوئے حکومت اپنے منصوبہ میں ترمیم کرسکتی ہے ۔ سکریٹریٹ کی تمام موجودہ عمارتوں کے انہدام کے بجائے واستو کے اعتبار سے چیف منسٹر کیلئے موزوں کسی علاقہ کا انتخاب کرتے ہوئے وہاں نئی عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ سکریٹریٹ کے درمیانی حصہ میں نظام دور حکومت کی تعمیر کردہ ایک عمارت انتہائی بوسیدہ ہوچکی ہے اور عہدیداروں نے مشورہ دیا کہ اس عمارت کو منہدم کرتے ہوئے واستو کے اعتبار سے چیف منسٹر کا بلاک تعمیر کیا جائے تاکہ اس بلاک میں صرف چیف منسٹر اور ان سے متعلق عہدیداروں کے دفاتر کام کرسکے۔ چیف منسٹر نے آندھراپردیش کو الاٹ کردہ جن عمارتوں کے حصول کی کارروائی شروع کی ہے ، اس میں رکاوٹ پیدا ہوگئی کیونکہ آندھراپردیش حکومت فوری طور پر یہ عمارتیں حوالے کرنے کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ آندھراپردیش تنظیم جدید قانون کے تحت حیدرآباد 10 سال تک دونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت برقرار رہے گا۔ نئے سکریٹریٹ کی تعمیر پر تنازعہ اور عوام میں حکومت کے بارے میں غلط رجحان پیدا ہونے کے اندیشہ کو دیکھتے ہوئے امکان ہے کہ حکومت عمارتوں کے انہدام کے منصوبہ کو ترک کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ ایسے وقت جبکہ ریاست کی معاشی صورتحال مستحکم نہیں ہے، سکریٹریٹ کامپلکس پر 350 روپئے کا خرچ سرکاری خزانہ پر زائد بوجھ ثابت ہوگا۔ واضح رہے کہ چیف منسٹر نے سکریٹریٹ کو ایرہ گڈہ میں نیا کامپلکس تعمیر کرتے ہوئے منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا اور بعد میں اس سے دستبرداری اختیار کرلی ۔ اسی طرح عثمانیہ ہاسپٹل کی موجودہ عمارت کو منہدم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن عوام میں ناراضگی کو دیکھتے ہوئے اس فیصلہ کو بھی واپس لینا پڑا۔