توبہ کا عملی تقاضہ، مثبت تبدیلی ہے

ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں اچھائی اور برائی دونوں صفات ودیعت فرمائی ہے۔ جب انسان پر وساوس شیطانی، خواہشات نفسانی اور دنیا طلبی کا جذبہ غالب آجاتا ہے تو خطا کا ہونا ایک فطری امر ہے، لیکن رحمت کردگار سے مایوس اور ناامید ہونا فاسقوں کی علامت ہے۔ مؤمن کا یقیں محکم تو اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی عطا کسی آئین کی پابند نہیں، اگر وہ چاہے تو خطاؤں پر بھی عطا فرماسکتا ہے۔
آج اگر ہم اپنے معاشرے پر طائرانہ نظر ڈالیں تو اس بات کا علم ہوگا کہ ہم بڑی حد تک جمود و غفلت کا شکار ہیں۔ صحابہ کرام کی تو یہ شان تھی کہ اگر کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی وقوع پزیر ہو جاتا تو فوراً رجوع الی اللہ ہوکر بارگاہ یزدانی میں دست بدعا ہو جایا کرتے، لیکن ہمارے سامنے بڑے سے بڑا سانحہ بھی ہو جاتا ہے تو ہم میں رمق برابر بھی حرکت نہیں آتی۔ اسی سکوت، خاموشی اور بے حسنی نے ہمیں اس قدر کمزور کردیا ہے کہ آج ہماری حیثیت تودۂ خاک سے زیادہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ باد تند تو درکنار، ہم میں باد نسیم کا بھی مقابلہ کرنے کی سکت باقی نہیں رہی۔ اسی لئے آج مسلمانوں کا خون پانی سے زیادہ سستا ہوچکا ہے۔

سرزمین شام، جہاں کبار و اجلہ صحابہ کرام و صحابیات، تابعین، صالحین و علمائے امت جیسے حضرت سیدنا بلال حبشی، امیر امت حضرت سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح، حضرت سیدنا خالد بن ولید، حضرت سیدنا امیر معاویہ، حضرت سیدنا معاذ بن جبل، حضرت سیدنا ابودردا، حضرت سیدنا سعد بن عبادہ، حضرت سیدنا ابی بن کعب، حضرت دحیہ کلبی، ام المؤمنین حضرت سیدہ ام حبیبہ، حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز، حضرت سیدنا صلاح الدین ایوبی، حضرت سیدنا ابن الصلاح، حضرت سیدنا ذہبی، حضرت حضرت سیدنا ترمذی، حضرت سیدنا ابن کثیر، حضرت سیدنا ابن عساکر، حضرت سیدنا امام نووی وغیرہ (رضی اللہ تعالی عنہم) آسودہ خاک ہیں، کو لہولہان کردیا گیا۔ اغیار حصول اقتدار کے لئے مسلمان کا خون پانی کاطرح بہا رہے ہیں، مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو شہید کیا جا رہا ہے، مسلم قائدین کو جیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑ رہی ہیں اور انھیں پھانسی پر لٹکایا جا رہا ہے۔ کہیں اسلامی مقدسات کی حرمت کو پامال کیا جا رہا ہے اور کہیں بے قصور مسلمانوں کا فرضی انکاؤنٹر کیا جا رہا ہے۔ ان تمام حالات و واقعات کو دیکھنے کے باوجود عالم اسلام ’’ٹک ٹک دیدم، دَم نہ کشیدم‘‘ کا مصداق بنا ہوا ہے، جو ہماری مردہ ضمیری اور بے حسی کی داستان بیان کر رہا ہے۔

ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں، جنھوں نے ان حالات کے مشاہدہ کے بعد یہ عہد کرلیا ہو کہ ہم اپنے روٹھے ہوئے رب کو منائیں گے، ہم قرآن اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کو مضبوط کریں گے، ہم آئندہ اسراف سے گریز کریں گے، ہم اپنے بچوں کی تربیت دینی خطوط پر کریں گے، ہم شریعت کے مطابق زندگی گزاریں، ہم اپنے مذہبی تشخص پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے، ہم دنیا کے سامنے اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کریں کہ ہم اپنے قول و عمل میں تضاد نہیں آنے دیں گے، ہم بدنگاہی، بدعہدی اور بدگوئی سے پرہیز کریں گے، ہم حلال و حرام کو ملحوظ رکھیں گے، ہم حقوق العباد صحیح معنوں میں ادا کریں گے، ہم موقتی اور فانی دنیا کی طلب سے زیادہ انسانیت نواز کاموں پر توجہ مرکوز کریں گے، ہم خانقاہی نظام کو خرافات سے پاک کرکے اصلاحات لائیں گے، ہم ٹی وی بینی میں وقت برباد کرنے کی بجائے محافل ذکر کا انعقاد کریں گے۔

سارے عالم اسلام پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہر مقام پر مسلمان کرب و اضطراب کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے عالم میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم رجوع الی اللہ ہوکر اپنے دانستہ یا نادانستہ خطاؤں اور گناہوں کی معافی طلب کرتے اور گڑگڑاکر مغفرت طلب کرتے، لیکن عالم اسلام کے مسلمانوں پر مجرمانہ بے حسی کی چادر تنی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افرادی قوت ہونے کے باوجود آج ہم ہر محاذ پر ناکام و نامراد ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے اسلاف کی روشن تاریخ اور سنہرے کارنامے اس بات پر شاہد ہیں کہ جب مسلمان خاموشی اور بے حسی کو توڑتے ہیں تو معرکہ بدر میں عددی قوت کم ہونے کے باوجود انھیں کامیابی ملتی ہے۔ قیصر و کسریٰ کی عظیم سلطنتیں ان کے زیر فرمان آجاتی ہیں۔ بیت المقدس کو آزاد کرانے میں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔

آج مسلم معاشرے میں دین اسلام کے مطابق ذہن سازی، شخصیت و افراد سازی پر کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ چوں کہ یہ بات مسلم ہے کہ انقلاب تن آسانی سے نہیں، بلکہ سخت محنت و مشقت اور مسلسل جدوجہد سے آتا ہے۔ جو قوم اپنے دست ہمت سے حالات کو بدلنے کی ہمت رکھتی ہے، وہی قوم کامیابی و کامرانی کے زینے آسانی سے طے کرتی ہے اور جو قوم حالات سے ڈرکر اپنے سفر کو موقوف کردیتی ہے، اس کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اپنا رشتہ مالک حقیقی سے مضبوط کرنا چاہئے، پھر دیکھیں کہ کامیابی و کامرانی کس طرح قدم چومتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں تبدیلی لانی پڑے گی، کیونکہ اللہ تعالی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا، جو خود بدلنے کا سلیقہ نہیں جانتی۔ ارشاد ربانی ہے ’’بے شک اللہ تعالی نہیں بدلتا کسی قوم کی (اچھی یا بری) حالت کو جب تک وہ لوگ اپنے آپ میں تبدیلی نہیں پیدا کرتے‘‘ (سورۃ الرعد۔۱۱) یعنی نعمت الہیہ کے حقدار بننے کے لئے ہم پر لازم ہے کہ ہم عصیان و طغیان کی روش چھوڑکر اطاعت و فرماں برداری اختیار کریں۔ توبہ کا مقصود اصلی بھی یہی ہے کہ انسان یہ عزم مصمم کرلے کہ ماضی کی روش دوبارہ اختیار نہیں کرے گا۔ جرم و عصیان کے مرض کو دفع کرنے کا بہترین نسخہ توبہ و استغفار ہے، لیکن یہ اسی وقت بندے کے حق میں نفع بخش ثابت ہوتی ہے، جب انسان توبہ و استغفار کے ذریعہ اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی لائے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں قرآن اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین)

اللہ تعالیٰ کے لئے محبت
اللہ تعالیٰ کے لئے آپس میں میل محبت کرنے والے اللہ کے محبوب ہو جاتے ہیں۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میری محبت واجب ہے ان لوگوں کے لئے جو میری وجہ سے محبت کریں، میری وجہ سے ملاقات کریں اور میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کریں‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کے بندوں میں کچھ ایسے خوش نصیب بھی ہیں، جو نبی یا شہید تو نہیں ہیں، لیکن قیامت کے دن بہت سے انبیاء اور شہداء اُن کے خاص مقام قرب کی وجہ سے اُن پر رشک کریں گے‘‘۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! ہمیں بتلا دیجئے کہ وہ کون لوگ ہیں؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ’’یہ وہ لوگ ہیں، جنھوں نے بغیر کسی رشتہ اور بغیر کسی مالی لین دین کے محض خوشنودیٔ رب تعالیٰ کی وجہ سے آپس میں محبت کی۔ پس قسم ہے اللہ تعالیٰ کی، قیامت کے دن ان کے چہرے سراسر نور ہوں گے اور وہ نور کے منبروں پر ہوں گے اور عام انسان جس وقت خوف و ہراس میں مبتلا ہوں گے، اس وقت وہ بے خوف، مطمئن اور بے غم ہوں گے‘‘۔