تنازعہ کے تسلسل کے دوران نئے صدر افغانستان کی حلف برداری

کابل۔ 28؍ستمبر (سیاست ڈاٹ کام)۔ افغانستان کے نئے صدر کی حلف برداری تقریب شاندار پیمانے پر کل منعقد کی جائے گی جب کہ امریکہ کے ساکن ماہر تعلیمات اشرف غنی زمام اقتدار سنبھالیں گے۔ سابق صدر حامد کرزئی تین ماہ کی صف آرائی کے بعد جو متنازعہ انتخابی نتائج کے بارے میں تھی جس کی وجہ سے شورش پسندی کو تقویت پیدا ہوئی اور افغانستان کے سنگین معاشی حالات مزید ابتر ہوگئے۔ تقریب حلف برداری ملک کے پہلے جمہوری طور پر اقتدار کی منتقلی کی اولین تقریب ہوگی۔ بین الاقوامی عطیہ دہندگان اسے ایک اہم ورثہ سمجھتے ہیں جو 2001ء میں طالبان کے اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد پہلی بار شہری معاملات میں فوج کی دخل اندازی کے بغیر منعقد کی جارہی ہے۔ اشرف غنی اور ان کے انتخابی حریف عبداللہ عبداللہ سابق مخالف طالبان مزاحمتی جنگجو نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے 14 جون کو دوسرے مرحلہ کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے، ساتھ ہی ساتھ دونوں نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ رائے دہی دھوکہ دہی پر مبنی تھی جس کی وجہ سے افغانستان میں سیاسی بحران پیدا ہوگیا تھا اور ملک گیر سطح پر بے چینی پیدا ہونے کے آثار نظر آرہے تھے، لیکن امریکہ اور اقوام متحدہ کے زبردست دباؤ کے تحت دونوں امیدواروں نے آخرکار ایک قومی متحدہ حکومت کے قیام سے اتفاق کرلیا اور اشرف غنی کو صدر افغانستان مقرر کردیا گیا۔

قبل ازیں تقریباً 80 لاکھ پرچہ جات رائے دہی کی جانچ کی گئی تھی۔ عبداللہ عبداللہ بھی چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے تقریب حلف برداری میں شامل رہیں گے۔ یہ ایک نیا عہدہ ہے جس کے اختیارات وزیراعظم کے مساوی ہوں گے۔ افغانستان کا سرکاری ڈھانچہ حامد کرزئی کی مکمل طور پر بااختیار صدارت سے مختلف ہوگا۔ کرزئی کے تعلقات امریکہ زیر قیادت ناٹو فوجی اتحاد سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ جنگ زدہ ملک میں بین الاقوامی حامیوں نے اربوں ڈالر مالی امداد فراہم کی تھی، لیکن اپنے دورِ اقتدار کے آخری دنوں میں حامد کرزئی کا مفاہمتی لب و لہجہ تبدیل ہوگیا تھا۔ انھوں نے توقع ظاہر کی تھی کہ افغانستان جلد ہی پُرامن اور مستحکم ہوجائے گا۔ نئے صدر اور ان کی حکومت کو عوامی تائید حاصل ہوگی۔ وہ سفیروں کی وداعی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں اعتدال پسند اور مغرب حامی قائدین ہیں جنھوں نے عہد کیا ہے کہ افغانستان کے سماجی ڈھانچے اور انفراسٹرکچر کی ترقی کے لئے جدوجہد کریں گے، لیکن افغانستان کو اب بھی طالبان عسکریت پسندوں سے زبردست خطرہ لاحق ہے۔
شہر کی اہم شاہراہوں پر پرچم لہرائے گئے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ تقریب حلف برداری کی تیاریاں جاری ہیں اور سرکاری عہدیداروں نے اس تقریب کو شاندار پیمانے پر منعقد کرنے کا عہد کیا ہے، کیونکہ اس سے افغانستان کے ایک نئے دور کا آغاز ہورہا ہے۔ مہمانوں کی فہرست سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عسکریت پسندوں کے حملے کے خطرے کے پیش نظر سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے ہیں۔ اشرف غنی قبل ازیں کرزئی حکومت میں 2002ء سے 2004ء تک وزیر فینانس رہ چکے ہیں اور 2009ء میں صدارتی انتخابات میں بھی مقابلہ کرچکے ہیں، لیکن انھیں صرف 3 فیصد ووٹ ہی حاصل ہوئے تھے۔ آج کابل کی نظم و ضبط کی صورتِ حال ابتر ہونے کا اندازہ اس طرح ہوا کہ قصر صدارت کی عمارت کے روبرو ایک گاڑی کے دروازے میں پوشیدہ بم سے دھماکہ ہوا۔ بڑے پیمانے پر شورش پسندوں کے حملے بھی کئی صوبوں میں حالیہ مہینوں میں کئے جاچکے ہیں۔ افغان فوج اور پولیس اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لئے سخت جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ناٹو کی کارروائیاں بڑی حد تک محدود ہوگئی ہیں، کیونکہ وہ جاریہ سال کے اختتام تک افغانستان کا تخلیہ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔