مولانا غلام رسول سعیدی
بادل بخارات کا ایک مجموعہ ہیں، جو مختلف مقدار حجم میں فضاء میں تیرتے پھرتے ہیں۔ یہ بخارات عموماً پانی کو اور بسا اوقات برف اور اولوں کو اپنے اندر لئے پھرتے ہیں۔ اب غور کیجئے کہ پانی ہو یا برف یا اولے، ان کا طبعی تقاضہ اوپر سے نیچے گرنا ہے، یا یوں کہہ لیجئے کہ کشش ثقل انھیں نیچے لانا چاہتی ہے۔ پھر وہ کونسی طاقت ہے، جو بادلوں کے اندر پانی کو جب تک چاہے روکے رکھتی ہے اور جب چاہے چھوڑ دیتی ہے۔ معلوم ہوا کہ بارش کے ہونے یا نہ ہونے میں پانی کے طبعی تقاضہ کا دخل ہے نہ کشش زمین کا، بلکہ ان تمام امور پر کوئی غالب و قاہر ہستی ہے، جو جب چاہے بادلوں سے پانی برسادے اور جب چاہے ان سے پانی روک لے۔
پھر اس کی قدرت کے ساتھ حکمت پر غور کیجئے کہ اگر وہ چاہتا تو تمام فضا پر بادلوں کو مسلط کردیتا اور ہم سورج کی روشنی کو ترس جاتے اور لگاتار بارش سے فصلیں برباد ہو جاتیں، مکانات منہدم ہو جاتے اور انسان کا روئے زمین پر زندہ رہنا دشوار ہو جاتا اور اگر وہ چاہتا تو سرے سے بادلوں کا وجود نہ ہوتا، لوگ تپتی ہوئی دھوپ میں سائے کو ترس جاتے، کھیتیاں پروان نہ چڑھتیں اور بعض علاقوں میں پینے تک کے لئے پانی میسر نہ ہوتا۔ پھر وہ بادلوں کو کسی ایک جگہ معلق نہیں رکھتا، بلکہ ہواؤں کے ساتھ ان کو رواں دواں رکھتا ہے اور جس وقت اور جس علاقہ میں بارش کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں پانی برسا دیتا ہے۔
غور کیجئے! انسانوں اور زمینوں کی ضرورت کے مطابق بادلوں کا وجود اور علاقائی ضروریات کے مطابق بادلوں کی آمد و رفت، کیا یہ سب خود بخود ہے یا کوئی اتفاقی حادثہ ہے؟۔ بعض زمینوں میں پٹ سن، پان، چاول اور چائے کی کاشت ہوتی ہے، جنھیں لگاتار بارش کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض زمینوں میں غلہ کی دوسری اجناس کی کاشت ہوتی ہے، جنھیں ایک خاص موسم میں بارش کی ضرورت ہوتی ہے۔ زمینوں کی ان مختلف صلاحیتوں اور مختلف جغرافیائی ضرورتوں کی مناسبت سے کہیں لگاتار اور کہیں ایک خاص وقت میں بارشیں برسانے والا کون ہے؟۔ ان تمام امور پر غور کیجئے اور پھر سوچئے کہ بارش کا یہ نظام کیا خود بخود چل رہا ہے یا کوئی اتفاقی حادثہ ہے؟ یا کسی انسان، موہوم دیوتا اور خود تراشیدہ بت کی کوشش ہے؟ یا اس قادر و قیوم، علام الغیوب ا
ور قدیر و حکیم کی قدرت اور حکمت کا ثمرہ ہے، جو دنیا کے تمام انسانوں کی ضروریات کا متکفل ہے، جو ہر علاقہ کی ضروریات کو جانتا ہے اور ہر زمین کی کیفیت، استعداد اور صلاحیت کا علم رکھتا ہے۔ پھر ان تمام انسانوں، علاقوں اور زمینوں کی ضرورت اور صلاحیت کے مطابق بادلوں کے ذریعہ بارش نازل کرنے کا نظام قائم فرماتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: ’’اور اللہ تعالی ہی ایسی ہواؤں کو بھیجتا ہے جو باران رحمت کی نوید دیتی ہیں اور ہم ہی نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی اتارا، تاکہ اس بارش سے ہم خشک اور ویران کھیتیوں کو سرسبز اور شاداب کردیں اور اسی بارش سے اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو پانی پلائیں‘‘ (سورۃ الفرقان۔۴۸،۴۹) نیز فرمایا ’’اور ہم نے بادلوں سے بارش برسانے والی ہوائیں بھیجیں، پھر ہم نے بادلوں سے پانی اتارا، پھر وہ پانی (نہروں اور دریاؤں کی صورت میں جمع کرکے) تم کو پلایا، حالانکہ اس پانی کے نازل کرنے اور جمع کرنے میں تمہارا کوئی دخل نہ تھا‘‘۔ (سورۃ الحجر۔۲۳)
پھولوں کے چھوٹے پودے سے لے کر چنار کے درخت تک نباتات کی بے شمار اقسام ہیں، ان میں سبزیاں، پھل اور پھول سب کچھ ہیں ہیں۔ ان کی روئیدگی زمین، پانی، ہوا، آفتاب کی شعاعوں اور چاند کی کرنوں سے ہوتی ہے، لیکن کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ ان سب کی روئیدگی کے اسباب ایک قسم کے ہونے کے باوجود ان اسباب کے آثار ایک دوسرے سے بالکل نہیں ملتے۔ جو پانی پھولوں کو ملتا ہے، وہی سبزیوں کو۔ جو ہوا پھلوں کو تازگی دیتی ہے، وہی فصلوں کو، اس کے باوجود کوئی پھول دوسرے پھول سے، کوئی پھل دوسرے پھل سے، کوئی فصل دوسری فصل سے نہیں ملتی۔ آخر ان میں فرق پیدا کرنے والا کون ہے اور ماناکہ نباتات کی روئیدگی ان اسباب سے ہے، لیکن ان اسباب کا خالق کون ہے؟۔
افلاک کی ان بلندیوں پر جہاں انسان کے وہم کی بھی رسائی نہیں ہے، وہاں کروڑوں ستارے کس نے روشن کئے ہیں؟۔ اگر ایک چراغ سے تیل ختم ہو جائے تو وہ بجھ جاتا ہے، شہر کا بجلی گھر فیل ہو جائے تو پورا شہر تاریکی میں ڈوب جاتا ہے، تو ان آسمانی روشنیوں کا انتظام کس نے کیا ہے، جس کی روشنی میں آج تک کمی نہیں ہوئی؟۔
کیکر کے درخت میں کبھی سیب کیوں نہیں لگتا؟ کبوتر کے انڈے سے کبھی کوّا کیوں نہیں نکلتا؟ انسان سے انسان ہی کیوں پیدا ہوتا ہے؟ ذرہ سے لے کر آفتاب تک یہ تمام کائنات نظام واحد میں مربوط ہے۔ اس ربط اور نظم و ضبط کا خالق کون ہے؟۔
یہ دن اور رات کا تسلسل، یہ سورج کا طلوع اور غروب، یہ نباتات میں روئیدگی، جانوروں اور انسانوں کی نسل میں باقاعدگی کا مربوط نظام، یہ نیلگوں فضائیں، یہ تاروں بھری روشن راتیں، یہ اودی گھٹائیں، یہ بلند کہسار اور سرسبز وادیاں، یہ اُبلتے ہوئے چشمے اور بہتے ہوئے دریا، یہ لہلہاتے ہوئے کھیت اور مہکتے ہوئے باغات، کیا یہ سب کے سب خدائے واحد کے موجود ہونے کی شہادت نہیں دیتے؟ کیا اس کائنات کے نظام کی یکسانیت اور وحدت میں اس عظیم خالق کی وحدت نظر نہیں آتی؟ بلکہ ہمیں کہنے دیں کہ جس شخص کو اس حسین کائنات میں خدا کے حسن کا جلوہ نظر نہیں آتا، اُسے وہ جنت میں بھی نظر نہیں آئے گا۔