تمام فتنوں سے احتراز کیا جائے

سید زبیر ہاشمی، معلم جامعہ نظامیہ

حالیہ کچھ دنوں سے اغیار اورمخالفین اسلام کی طرف سے بنام ’’لوجہاد‘‘ کہہ کر شریعت کی کھلی خلاف ورزی کرنے پر لوگوں کو آمادہ اور اکسایا جارہا ہے، جو کہ ایک اس وقت کا ایک بڑا فتنہ اور شریعت کی رَو سے دھوکہ ہے۔چنانچہ بارشاد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم دھوکہ دینا منع ہے۔ شریعت کی ہر گز ہرگز خلاف ورزی کبھی نہ کیجائے۔
سب کے لئے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہمارا خالق حقیقی اﷲ سبحانہ وتعالیٰ ہی ہے، اُس نے ہم تمام کو اشرف المخلوقات بنا کر اِس دنیائے فانی میں بھیجا ہے تو آخر اس کا مقصد کیا ہے ؟ اس کے جواب میں ہمیں یہی بتلایا گیا ہے کہ انسان اِس فانی زندگی میں جو کہ دارالعمل ہے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول پاک صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمابرداری کو اختیار کرے، اور دونوں کو ہمیشہ راضی کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہی ایک بڑا مقصد ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو اس دنیائے فانی کے فتنوں {لوجہاد وغیرہ} سے، بڑوں کو تکلیفدینے اور طرح طرح کی غلط راہوں کو اختیار کرنے سے بچائے رکھنا چاہئے۔ آج آپ کے معلومات میں اضافہ کی خاطر فتنے کا ظہور اور اس سے گوشہ نشینی کیسی کی جائے اس کے متعلق بہت ہی اختصار کے ساتھ تحریر کیا جائیگا بغور ملاحظہ ہو:

حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عنقریب فتنوں کا ظہور ہوگا۔ یاد رکھو! پھر فتنے پیدا ہوں گے اور یاد رکھو ان فتنوں میں سے ایک بہت بڑا فتنہ (یعنی مسلمانوں کی باہمی محاذ آرائی اور خونریزی کا حادثہ پیش آئے گا)۔ اس فتنہ میں بیٹھا ہوا شخص چلنے والے شخص سے بہتر ہوگا اور چلنے والا شخص اس فتنہ کی طرف دوڑنے والے شخص سے بہتر ہوگا۔ پس آگاہ رہو! جب وہ فتنہ پیش آئے تو جس شخص کے پاس (جنگل میں) اونٹ ہوں، وہ اپنے اونٹوں کے پاس (جنگل میں) چلا جائے۔ جس شخص کے پاس بکریاں ہوں، وہ بکریوں کے پاس چلا جائے اور جس شخص کے پاس (اس فتنہ کی جگہ سے کہیں دور) کوئی زمین و مکان وغیرہ ہو، وہ اپنی اس زمین پر یا اس مکان میں چلا جائے‘‘۔

حاصل یہ کہ جس جگہ فتنہ ظاہر ہو، وہاں نہ ٹھہرے، بلکہ اس جگہ کو چھوڑکر کہیں دور چلا جائے اور گوشہ عافیت اختیار کرلے یا اس فتنہ پر توجہ دیئے بغیر اپنے کاروبار میں مشغول و منہمک ہو جائے۔ ایک شخص نے (یہ سن کر) عرض کیا کہ ’’یارسول اللہ! مجھے یہ بتائیے کہ اگر کسی شخص کے پاس نہ اونٹ ہو اور نہ بکریاںہو اور نہ (کسی دوسری جگہ) کوئی زمین و مکان وغیرہ ہو (کہ جہاں وہ جاکر گوشہ عافیت اختیار کرے اور اس فتنہ کی جگہ سے دور رہ سکے تو اس کو کیا کرنا چاہئے؟‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس کو چاہئے کہ وہ اپنی تلوار کی طرف متوجہ ہو اور اس کو پتھر پر مارکر توڑ ڈالے‘‘ (یعنی اس کے پاس جو بھی آلات حرب اور ساز و سامان ہوں، ان کو بیکار اور ناقابل استعمال بنا دے، تاکہ اس کے دل میں جنگ کا خیال ہی نہ پیدا ہو اور وہ مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کے اس فتنہ میں شریک ہی نہ ہو سکے۔ یہ حکم اس لئے ہے کہ جس لڑائی میں دونوں طرف سے مسلمان جھگڑا کر رہے ہوں، اس میں شریک نہیں ہونا چاہئے)۔ اور پھر اس شخص کو چاہئے کہ اگر وہ فتنہ کی جگہ سے دور ہوسکتے ہیں تو فوراً دور ہوجانا چاہئے (تاکہ وہ اس فتنہ کے اثرات سے محفوظ رہ سکے (اس کے بعد آپ نے یہ فرمایا ’’اے اللہ! میں نے تیرے احکام تیرے بندوں کو پہنچا دیئے۔ یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمائے۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ ’’یارسول اللہ! مجھے یہ بتائیے کہ اگر مجھے مجبور کرکے (یعنی زبردستی سے) لڑنے والے دونوں فریق میں سے کسی ایک فریق کی صف میں لے لیا جائے اور وہاں میں کسی شخص کی تلوار سے مارا جاؤں یا کسی کا تیر آکر مجھ کو لگ جائے، جو مجھے موت کی آغوش میں پہنچا دے (تو اس صورت میں قاتل اور مقتول کا کیا حکم ہوگا؟)‘‘۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’تمہارا وہ قاتل اپنے اور تمہارے گناہ کے ساتھ لوٹے گا اور دوزخیوں میں شمار ہوگا‘‘۔ (مفہوم حدیث مسلم شریف)

علمائے ملت اسلامیہ کا کہنا یہ ہے کہ افتراق و انتشار کسی بھی مسلمان کے لئے کبھی بھی جائز و درست نہیں ہے کہ وہ قتل و قتال میں شریک ہو، بلکہ جب فتنے ظاہر ہوں تو اُسوقت ان فتنوں سے احتراز کرنا اور گوشہ عافیت کو اختیار کرنا ضروری ہے، تاکہ اسلامی معاشرہ میں کسی بھی قسم کا کوئی عیب، بگاڑ اور عمل فسق نہ پایا جائے۔
مولائے ذوالجلال سے دعا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کو تمام فتنوں خاص کر ’’لوجہاد‘‘ جیسے مہلک فتنہ سے احتراز کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
zubairhashmi7@gmail.com