پروفیسرسید عطاء اللہ حسینی قادری الملتانی
حقوق اللہ میں تیسرا حق ’’عبادت‘‘ ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی صاحب عقل انکار نہیں کرسکتا کہ اللہ تعالی خالق ہے۔ جو خالق ہوگا وہی مالک ہوگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تخلیق کوئی کرے اور مالک کوئی اور بن بیٹھے۔ پھر جو مالک ہوگا وہی حاکم ہوگا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ملکیت کسی کی ہو اور حکومت کوئی اور کرے، لہذا یہ بات ایک طے شدہ امر ہے کہ اللہ تعالی ہی خالق، مالک اور حاکم ہے۔ پھر وہ صرف خالق، مالک اور حاکم ہی نہیں، بلکہ وہ رب بھی ہے، رحمان بھی ہے اور رحیم بھی۔ اسی طرح اپنی دوسری صفات کے ساتھ بھی وہ بندوں پر متوجہ ہے اور ان ہی صفات کے مطابق ان سے برتاؤ کر رہا ہے۔
ان تمام صفات پر غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ کائنات کے تمام اختیارات اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ یہاں انتظام، انصرام اور اختیار سب کچھ اسی کا ہے۔ نفع و ضرر کا اختیار بھی اسی کو حاصل ہے، لہذا عبادت کا مستحق بھی وہی ہے، اس کے سوا کوئی اور نہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اے رسول! آپ ان سے پوچھیں، کیا تم اللہ کو چھوڑکر اس کی پرستش کرتے ہو، جو تمہارے لئے نہ نقصان کا اختیار رکھتا ہے نہ نفع کا؟‘‘ (سورہ مائدہ۔۷۶) لہذا وہی ایک ذات ہے، جو الٰہ ہونے کی مستحق ہے، اس کے سوا کوئی اور الٰہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ’’لاالہ الااللہ‘‘ اس کی الوہیت کا اولین تقاضا یہی ہے کہ مخلوق اسی کی بندگی اور عبادت کرے، جب کہ کائنات کی ہر شے اس کی بندگی، عبادت اور اطاعت کربھی رہی ہے۔ ارشاد باری ہے: ’’آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اسی کی تابع فرمان ہیں‘‘ (آل عمران۔۸۳) ’’آسمانوں اور زمین کی ہر چیز طوعاً و کرہاً اللہ ہی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہے‘‘ (سورہ رعد۔۱۵) پوری کائنات میں صرف جن و انس ہی ایک ایسی مخلوق ہے، جس کو ارادے اور اختیار کی آزادی دی گئی ہے۔
کائنات کی ہر چیز تو اللہ تعالی کی بندگی اور اطاعت کر رہی ہے، پھر ارادہ و اختیار میں آزاد مخلوق کو کس طرح زیب دے سکتا ہے کہ وہ اپنے ارادے اور اختیار کا ناجائز استعمال کرکے اپنے خالق کی باغی بن جائے اور اپنا سرنیاز کسی اور کے آگے جھکادے، کسی اور کی بندگی اختیار کرے، معبود حقیقی سے منہ موڑکر کسی اور کی عبادت کرنے لگے۔ اسی لئے خود اللہ تعالی نے وضاحت فرمادی کہ ’’میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت اور بندگی کے لئے پیدا کیا ہے‘‘ (ذاریات۔۵۶) مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی بندگی کے لئے نہیں پیدا کیا، لہذا انھیں میری ہی بندگی کرنی چاہئے۔
اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ساری کائنات اسی کی بندگی کر رہی تھی تو پھر جن و انس کو عبادت کے لئے اس نے کیوں پیدا کیا؟۔ اس کا جواب سمجھنے کے لئے پہلے عبادت کی حقیقت کو سمجھ لینا چاہئے۔ عبادت کہتے ہیں انتہائی ذلت و پستی اور عاجزی و انکساری کے اظہار کو۔ کائنات کی ہر شے اللہ تعالی کے آگے اپنی انتہائی ذلت و پستی، عاجزی و انکساری کا اظہار بلاواسطہ اور بغیر چوں و چرا کر رہی ہے، لیکن جن و انس کو ارادے اور اختیار کی آزادی دے کر ان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اب تم اپنے ارادے اور اختیار سے ہماری عبادت کرو۔ ارادے اور اختیار کی آزادی کے بعد عبادت کے مطالبہ کا مقصد آزمائش اور امتحان ہے، کیونکہ امتحان کے لئے ارادے اور اختیار کی آزادی ضروری ہوتی ہے۔ اگر یہ آزادی نہ ہو تو پھر امتحان کیسا؟۔ اگر کسی طالب علم کو پابند کردیا جائے کہ اس کو امتحانی کاپی میں صرف فلاں جواب لکھنا ہے تو پھر امتحان کیا خاک ہوا۔ امتحان تو اسی صورت میں ہوگا کہ سادہ کاپی اس کے سامنے رکھ دی جائے اور کہہ دیا جائے کہ تم اپنی آزاد مرضی سے جو چاہو لکھو، چاہے صحیح جواب لکھو، چاہے فلمی گانے لکھو، تمھیں اختیار ہے۔ صحیح جواب لکھو گے تو کامیاب قرار دیئے جاؤ گے اور غلط جواب لکھو گے تو ناکام۔ فلاح و خسران کا، کامیابی اور ناکامی کا یہی تصور اسلام نے دیا ہے۔
جن و انس کے سوا باقی تمام مخلوق اللہ تعالی کی بالواسطہ عبادت کر رہی ہے، کیونکہ ارادے اور اختیار کی آزادی اسے حاصل نہیں ہے، وہ چار و ناچار عبادت کرنے پر مجبور ہے، لیکن انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی کے باوجود اس کے لئے کچھ عبادتیں مقرر کردی گئی ہیں، جو لازماً اس کو کرنی ہی ہیں۔ مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکوۃ وغیرہ یہ عبادتیں بلاواسطہ یعنی ڈائریکٹ اور محدود ہیں، ان کا طریقہ اور اوقات وغیرہ سب مقرر ہیں، لیکن ان کے علاوہ بھی انسان کو بہت ساری عبادتیں زندگی کے تمام شعبوں میں کرنی ہیں۔ یہ عبادت کا وسیع تصور ہے۔
زندگی وحدت ہونے کے باوجود مختلف شعبوں میں بٹی ہوئی ہے۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، تہذیبی اور اخلاقی وغیرہ۔ یہ سارے شعبے زندگی سے متعلق ہیں اور ہر شعبے کے کچھ تقاضے ہیں، جنھیں پورا کرناانسان کا فرض ہے۔ خدا کے حکم کے مطابق ان تقاضوں کو پورا کرنا بھی عبادت ہے، لیکن یہ عبادت بلاواسطہ نہیں بلکہ بالواسطہ ہوگی، یعنی تمام مخلوق بلاواسطہ عبادت کر رہی ہے، صرف انسان ایک ایسی مخلوق ہے، جس پر دوہری ذمہ داری ہے، یعنی اس کو بلاواسطہ عبادت بھی کرنی ہے اور بالواسطہ بھی۔
مخلوقات کی ایک بڑی تقسیم یہ کی گئی ہے کہ اس کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ ایک قسم ہے ذوی العقول اور دوسری قسم ہے غیر ذوی العقول۔ ذوی العقول میں تین طرح کی مخلوق کو شامل کیا گیا ہے، یعنی انسان، جن اور فرشتے۔ پھر ان ذوی العقول کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک وہ مخلوق جو ارادہ و اختیار کی آزادی رکھتی ہے، یہ جن اور انسان ہے۔ دوسری وہ مخلوق جو ارادہ و اختیار کی آزادی نہیں رکھتی، یہ فرشتے ہیں۔ ان تینوں مخلوقات کے علاوہ باقی ساری مخلوق کو غیر ذوی العقول سمجھا گیا ہے، یعنی یہ عقل و شعور نہیں رکھتی۔ عقل و شعور اس مفہوم میں ہیں، جس مفہوم میں یہ الفاظ انسان کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ (اقتباس)