گریٹر ورنگل اور کھمم میونسپل کارپوریشن انتخابات میں تنہا مقابلہ
حیدرآباد ۔ یکم ۔ مارچ : ( سیاست نیوز ) : تلگو دیشم بی جے پی اتحاد پھوٹ کا شکار ہوگیا ہے اور دونوں ہی جماعتیں گریٹر ورنگل اور کھمم کے میونسپل کارپوریشن انتخابات میں تنہا مقابلہ کررہی ہیں یہ دوریاں عارضی ہیں یا مستقل ، اس مسئلہ پر دونوں جماعتیں لب کشائی سے گریز کررہے ہیں ۔ 2014 کے عام انتخابات میں تلگو دیشم اور بی جے پی نے ایک دوسرے سے سیاسی اتحاد کیا تھا ۔ بی جے پی اتحاد سے آندھرا پردیش میں تلگو دیشم کو اقتدار حاصل ہوا ہے ۔ اور بی جے پی بھی حکومت میں شامل ہوگئی ہے ۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کو اقتدار حاصل ہوا ہے ۔ تاہم گریٹر حیدرآباد میں تلگو دیشم بی جے پی اتحاد کو زبردست فائدہ ہوا ہے ۔ دونوں جماعتوں کو 24 کے منجملہ 16 اسمبلی حلقوں میں کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ تلنگانہ میں بی جے پی ابتداء سے تلگو دیشم سے اتحاد کے خلاف تھی تاہم قومی پالیسی اور تلگو دیشم این ڈی اے کا حصہ ہونے کی وجہ سے تلنگانہ کے بی جے پی قائدین نے اس سے اتفاق کیا ہے ۔ ورنگل لوک سبھا ضمنی انتخابات سے دونوں جماعتوں میں اختلافات رونما ہوگئے ہیں ۔ تلنگانہ بی جے پی یونٹ نے اپنے ہائی کمان سے ورنگل میں تلگو دیشم کے ساتھ نہ دینے کی شکایت کی ہے ۔ گریٹر حیدرآباد کے بلدی انتخابات کے بعد دونوں جماعتوں میں مزید دوریاں بڑھ گئی ہیں۔ شکست کے بعد تلنگانہ بی جے پی قائدین نے ضلعی سطح پر قرار دادیں منظور کرتے ہوئے ورنگل اور کھمم کے میونسپل الیکشن میں تلگو دیشم سے اتحاد نہ کرنے کا مطالبہ کیا ۔ ان قرار دادوں کو تلنگانہ بی جے پی کے صدر مسٹر جی کشن ریڈی نے بی جے پی کے قومی صدر مسٹر امیت شاہ سے رجوع کیا اور امیت شاہ کی رضا مندی کے بعد بی جے پی تلگو دیشم سے اتحاد کیے بغیر دونوں میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں تنہا مقابلہ کررہی ہے ۔ تلگو دیشم پارٹی نے بھی بی جے پی سے اتحاد کرنے کے معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ۔ سربراہ تلگو دیشم پارٹی و چیف منسٹر آندھرا پردیش مسٹر این چندرا بابو نائیڈو نے بھی تلنگانہ تلگو دیشم قائدین کو تنہا مقابلہ کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ بی جے پی اور تلگو دیشم کے تعلقات میں دوریاں پیدا ہوگئی ہیں ۔ آندھرا پردیش میں مرکز سے تعاون نہ ملنے کا جہاں تلگو دیشم پارٹی الزام عائد کررہی ہے ۔ وہیں بی جے پی ہر ممکن تعاون کرنے کے بعد احسان مند نہ ہونے کا تلگو دیشم پر الزام عائد کررہی ہے ۔ مگر تلنگانہ میں دونوں ہی جماعتیں خاموش ہیں ۔۔