تلگودیشم ۔ بی جے پی اتحاد

اخلاق اور اصول کتابوں میں ملیں گے
دنیا تو ہے بس آج مفادات کی دنیا

تلگودیشم ۔ بی جے پی اتحاد

حسب توقع تلگودیشم نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرلیا ہے ۔ گذشتہ کئی دن سے جاری بات چیت نے بالآخر نتیجہ برآمد کرلیا اور دونوں جماعتوں کے مابین نشستوں کی تقسیم پر مفاہمت ہوچکی ہے ۔ ہفتے سے بات چیت میں شدت پیدا ہوگئی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ دونوں ہی جماعتیں اپنے اپنے ادعا کو مستحکم بنانے کیلئے ڈرامہ بازیاں بھی کر رہی ہیں ۔ ایک طرف تلگودیشم کے تلنگانہ قائدین تو دوسری طرف بی جے پی کے تلنگانہ قائدین اس مفاہمت کی مخالفت کر رہے تھے ۔ اس کا مقصد ایک دوسرے پر دباؤ ڈالتے ہوئے اپنے اپنے مفادات کو منوانے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔ اس اتحاد کے ذریعہ تلگودیشم پارٹی نے اپنی موقع پرستی کا ایک بار پھر ثبوت فراہم کردیا ہے ۔ تلگودیشم پارٹی کے سربراہ چندرا بابو نائیڈو نے ماضی میں جب این ڈی اے میں شمولیت اختیار کی تھی اس وقت انہیں مسلمانوں کے ووٹوں سے محروم ہونا پڑا تھا ۔ انہیں جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے بارہا اعلان کیا تھا کہ وہ بی جے پی سے اتحاد یا مفاہمت کی غلطی کو دہرائیں گے نہیں بلکہ وہ بی جے پی سے کانگریس کی طرح دوری برقرار رکھیں گے ۔ قومی سطح پر بی جے پی اور کانگریس کے گرد گھومتی ہوئی سیاست کے پیش نظر یہ درست ہے کہ چندرا بابو نائیڈو کانگریس کے ساتھ نہیں جاسکتے لیکن اگر اصولوں کی سیاست پر ان کا یقین ہوتا تو وہ بی جے پی سے بھی دوری بنائے رکھتے ۔ تاہم انہوں نے آندھرا پردیش کی تقسیم کے بعد بی جے پی سے ناطہ جوڑتے ہوئے ریاست کے مسلمانوں کے علاوہ سکیولر ذہن رکھنے والوں کو مایوس کردیا ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو نے گذشتہ ایک دہے میں مسلمانوں کی تائید حاصل کرنے اور ان کا اعتماد جیتنے کی کوششیں کی تھیں اور اس میں انہیں کچھ حد تک کامیابی بھی حاصل ہوگئی تھی لیکن اب انہوں نے جو فیصلہ کیا ہے اس سے اقلیتیں اور خاص طور پر مسلمان تلگودیشم سے ہمیشہ کیلئے دور ہوجائیں گے ۔ چندرا بابو نائیڈو نے شائد سیما آندھرا میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے اور یہ ان کی سیاسی موقع پرستی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ انہوں نے سکیولر اقدار کو تار تار کردیا ہے ۔

بی جے پی سے اتحاد کرتے ہوئے چندرا بابو نائیڈو کے سامنے صرف اور صرف سیما آندھرا کا اقتدار تھا اور سکیولر اقدار یا مسلمان رائے دہندے ان کی ترجیح نہیں رہے تھے ۔ چندرا بابو نائیڈو نے دو دن قبل ہی دئے گئے نریندر مودی کے معاون امیت شاہ کے اس متنازعہ بیان کو بھی نظر انداز کردیا جس میں انہوں نے اعلانیہ طور پر کہا تھا کہ اگر بی جے پی کو اقتدار ملتا ہے تو مظفر نگر میں ہوئے فسادات کا بدلہ لیا جائیگا ۔ چندرا بابو نائیڈو نے بی جے پی سے اتحاد کرتے ہوئے راجستھان کی چیف منسٹر وسندھرا راجے سندھیا کے اس بیان کو بھی نظر انداز کردیا جس میں انہوں نے جوابی انتباہ دیا ہے کہ یہ بات تو انتخابات کے بعد ہی پتہ چلے گی کہ کس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونگے ۔ انہوں نے یہ بیان یو پی میں کانگریس رکن پارلیمنٹ کے اس بیان کے جواب میں دی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر مودی اتر پردیش کو گجرات بنانے کی کوشش کرینگے تو ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے جائیں گے ۔ چندرا بابو نائیڈو نے سارے ملک میں گجرات کے ماڈل کو لاگو کرنے کے بیانات کو بھی نظر انداز کردیا اور انتہا تو یہ ہوگئی کہ تلگودیشم ۔ بی جے پی اتحاد کی بات چیت میں آر ایس ایس کے نمائندے بھی شریک رہے اور چندرا بابو نائیڈو نے سیما آندھرا میں اقتدار حاصل کرنے کی ہوس اور لالچ میں آر ایس ایس کے نمائندوں سے بھی بات چیت کرنا گوارا کرلیا ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نائیڈو کے پاس صرف اقتدار حاصل کرنا اہمیت کا حامل ہے اور دوسرا کچھ نہیں ۔
یہ درست ہے کہ سیاست میں اس طرح کی توڑ جو ڑ ہوتی رہتی ہے اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے اتحاد کرتی ہیں لیکن جس طرح سے مودی کے اقتدار والی ریاست گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا ‘ جس طرح سے مظفر نگر کے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کیا گیا اور اب پھر ان سے بدلہ لینے کی کھلے عام دھمکیاں دی جا رہی ہیں اس کے باوجود بی جے پی سے دوستی کا خمیازہ چندرا بابو نائیڈو کو بھگتنا پڑیگا اور خاص طور پر تلنگانہ میں تلگودیشم پارٹی کا وجود ہی مٹ جائیگا ۔ ایسا لگتا ہے کہ تلنگانہ میں پارٹی کے مستقبل کی اور مسلمانوں کی پارٹی سے دوری کی نائیڈو کو کوئی فکر نہیں ہے اور وہ صرف سیما آندھرا کے اقتدار کو اپنا سیاسی مقصد بناچکے ہیں۔ ایسے میںا ب مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ چندرا بابو نائیڈو کو بی جے پی سے اتحاد کرنے پر سبق سکھائیں اور خود تلگودیشم میں شامل مسلمان قائدین کو چاہئے کہ وہ کسی تاخیر کے بغیر پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنا احتجاج درج کروائیں اور ملی حمیت اور غیرت کا ثبوت فراہم کریں۔