تلگودیشم کا 33 سالہ سفر

تلگودیشم کے 33 سالہ سیاسی سفر میں کئی نشیب و فراز آئے ہیں۔ اس وقت یہ پارٹی آندھرا پردیش میں اقتدار پر ہے تو تلنگانہ میں اوپزیشن کی حیثیت سے کئی چیلنجس کا سامنا کررہی ہے۔ تروپتی میں منعقدہ تلگودیشم مہاناڈو موجودہ قومی و علاقائی سیاسی حالات کے تناظر میں اہمیت کا حامل تھا مگر صدر پارٹی اور چیف منسٹر آندھراپردیش چندرا بابو نائیڈو نے پارٹی کے قومی سیاست کے عزائم کو پوشیدہ رکھا اور علاقائی سیاست پر منڈلاتے مصیبتوں کے بادلوں کو دور کرنے پر توجہ دی۔ اس وقت علاقائی سطح پر تلگودیشم کو خود اپنی ریاست آندھراپردیش میں مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ تلنگانہ میں پارٹی کی ساکھ بری طرح متاثر ہوچکی ہے۔ آندھراپردیش میں بحیثیت حکمراں پارٹی تلگودیشم کو 2 جون سے قبل واضح ایکشن پلان کا اعلان کرنا تھا لیکن ایسے کسی ایکشن پلان سے عاری مہاناڈو کا اختتام پارٹی کیڈرس کے لئے مایوس کن ہوگا۔ تلگودیشم نے ماضی میں قومی سطح پر بادشاہ گر کا رول ادا کیا ہے اس وقت بی جے پی حکومت کیساتھ تلگودیشم کا اتحاد سکیولر گروپ سے دوری کا باعث بنا۔ گزشتہ دنوں کولکتہ میں چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی کی حلف برداری تقریب میں وفاقی محاذ بناکر سکیولر اتحاد کے لئے یکجا ہونے کا منصوبہ رکھنے والی علاقائی پارٹیوں میں تلگودیشم غائب رہی۔ اپنے سکیولر امیج کو مسخ کرنے والی تلگودیشم کو مرکز میں کوئی فائدہ نہیں ہوا اور ریاستی سطح پر بھی وہ سکیولر ووٹروں سے دور ہوگئی۔ تلنگانہ میں تلگودیشم کا صفایا کرنے والی قوتوں کو یہ موقع مل گیا کہ ماضی کی قومی سطح کی بادشاہ گر پارٹی کو صفر سطح پر لاکر رکھ دے۔ تروپتی میں منعقدہ سہ روزہ مہاناڈو میں اگرچیکہ پارٹی کی ناکامیوں اور کامیابیوں پر گہرائی سے جائزہ لیا جاتا تو آئندہ کے لائحہ عمل کو قطعیت دینے اور تلنگانہ کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر پارٹی کو نمائندہ سیاسی طاقت بناکر ابھارنے میں مدد ملتی۔

تلگودیشم نے تروپتی میں تیسری مرتبہ مہاناڈو کا انعقاد عمل میں لایا، پہلی مرتبہ 2003ء میں مہاناڈو منعقد ہوا تھا جب چندرا بابو نائیڈو مشترکہ ریاست آندھراپردیش کے چیف منسٹر تھے اور 2007 ء میں تلگودیشم پاوزیشن میں تھی تو تروپتی میں مہاناڈو منعقد کیا گیا تھا لیکن تمام تین موقعوں پر بھی تلگودیشم کے مستقبل کے لائحہ عمل کو قطعیت دینے میں خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت کے سیاسی حالات ماضی سے بالکل مختلف ہیں، بحیثیت پارٹی صدر چندرا بابو نائیڈو کو ٹھوس پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک تلنگانہ کا تعلق ہے یہاں تلگودیشم کا احیا مشکل ہے۔ بستقبل قریب میں تلگودیشم اگر خود کے احیا کی جدوجہد کرتی ہے تو اس میں کس حد تک کامیابی ملے گی یہ کہنا مشکل ہے۔ البتہ قومی سطح پر اگر بی جے پی آر ایس ایس کے خلاف سکیولر محاذ بنتا ہے اور اس سکیولر اتحاد میں تلگودیشم کو بھی کوئی خاص رول ملتا ہے تو ایسی صورت میں سکیولر امیج کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی لیکن سکیولر رائے دہندوں نے تلگودیشم کی قیادت کو ایک سے زائد مرتبہ آزمایا ہے اور ہمیشہ انہیں مایوسی ہی ہوئی ہے۔ تلگودیشم کو تلگو ریاستوں سے ہٹ کر وسعت دینے کا منصوبہ اس وقت کامیاب ہوگا جب یہ پارٹی اپنی ریاست میں عوام کے حق میں موثر فلاحی کام انجام دے کر شہرت حاصل کرے گی۔ کرناٹک اور ٹالمناڈو میں ریاستوں میں تلگودیشم کو اپنا کھاتہ کھولنے کے لئے سخت محنت کرنی ہوگی بجائے اس محنت کے تلگودریاستوں میں ہی اپنی ساری توانائی صرف کرنے کو تلنگانہ میں اس کے احیا کی امید کی جاسکتا ہے اور آندھراپردیش میں اسے کمزور کرنے کی کوشش کرنے والی طاقتوں کو ناکامی مل سکتی ہے۔

بی جے پی سے اتحاد کرنے کے باعث عوامی ناراضگیوں میں اضافہ ہوا۔ تلگودیشم کو بی جے پی کی دوستی سے نفع کم نقصان زیادہ ہوا۔ مرکز کی جانب سے آندھراپردیش کو خصوصی موقف کا درجہ حاصل کرنے میں ناکام چندرا بابو نائیڈو کو پارٹی کے اندر ہی دبائو کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ آندھراپردیش کے اپنے کئی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ا ن مسائل کو نمٹنے میں ساری توانائی ختم ہوجائے گی مگر حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ ایسے میں آندھراپردیش کی اپوزیشن وائی ایس آر کانگریس کو تلگودیشم کے خلاف گمراہ کن مہم چلانے کا موقع مل گیا ہے۔ قومی پارٹی کا موقف حاصل کرنے کی آرزو میں تلگودیشم علاقائی سطح پر ہی کمزور پ،ڑ جائے تو اس کی شکست کے سیاسی اثرات دیرپا ہوں گے ۔ لہٰذاچادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کی مثال نظرانداز کردی جائے تو اس کا خمیازہ بھی پارٹی قیادت کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ ایک کہنہ مشق تجربہ کار سیاستداں کی حیثیت چندر ابابو نائیڈو کو قومی سطح کی سیاست میں اپنے ہاتھ چلانے کی کوشش کرنے سے بہتر ہے کہ علاقائی سطح پر خود کو مضبوط بنائے رکھنے کی جستجو کریں۔ ایک سیاسی مدیر اور دوراندیش سیاستداں کے طور پر چندرا بابو نائیڈو قومی سیاست کے لئے موثر تیاری کی ہے تو ان کا تجربہ کیا رنگ لاتا ہے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔