تلگودیشم اور وائی ایس آر کانگریس کو تلنگانہ بل پر بحث کا مشورہ

حیدرآباد۔/8جنوری، ( پی ٹی آئی) آندھرا پردیش کے چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی نے تلگودیشم پارٹی اور وائی ایس آر کانگریس سے ریاستی قانون ساز اسمبلی میں اے پی تنظیم جدید بل 2013 کے مسودہ پر بحث میں حصہ لینے کی اپیل کی ہے۔ واضح رہے کہ تلگودیشم پارٹی اور وائی ایس آر کانگریس کے سیما آندھرا علاقہ سے تعلق رکھنے والے ارکان کو مسلسل ہنگامہ آرائی کے سبب آج ایوان کی کارروائی کئی مرتبہ ملتوی کی گئی۔ چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی نے آج شام پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اگر کوئی بحث ہی نہیں کی جائے تو یہ سمجھا جائے گا کہ ہم نے ریاست کی تقسیم کو قبول کرلیا ہے۔ چنانچہ ہمیں چاہیئے کہ اس پر بحث کریں اور اپنے نظریات سے صدر جمہوریہ اور پارلیمنٹ کو واقف کروائیں۔ ان دونوں جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آگے آئیں اور بحث میں حصہ لیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایوان میں ضروری بحث کے بعد دونوں علاقوں ( سیما آندھرا اور تلنگانہ ) کے ارکان کو ریاست کی تقسیم سے ہونے والے فائدہ اور نقصانات کا پتہ چل جائے گا‘‘۔ واضح رہے کہ مرکزی کابینہ کی جانب سے ریاست کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کئے جانے کے بعد سے آندھرا پردیش کے چیف منسٹر مسلسل اس فیصلہ پر اعتراض کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر تقسیم کی جاتی ہے تو اس سے دونوں علاقوں ( سیما آندھرا اور تلنگانہ ) کو نقصان پہونچے گا۔

چیف منسٹر کے بیان پر وائی ایس آر کانگریس کی تنقید
حیدرآباد۔/8جنوری، ( پی ٹی آئی) وائی ایس آر کانگریس نے چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی کی طرف سے آج کی گئی تنقیدوں پر سخت اعتراض کیا۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے ترجمان امباٹی رام بابو نے کہا کہ ’’ عوام کے آگے سوال یہ ہے کہ آندھرا پردیش کی تقسیم کے بل کی مخالفت کی جائے گی یا پھر بل کے مسودہ کی دفعات کو بحث کے ذریعہ قبول کرلیا جائے۔ تقسیم کو مسترد کئے بغیر تقسیم پر بحث کا مطلب ہی کیا ہوسکتا ہے۔ کانگریس کی جانب سے اپنے فیصلے کے اعلان کے بعد آیا ریاستی اسمبلی میں تقسیم کے خلاف کوئی قرارداد منظور کی گئی تھی۔ اگر پہلے ہی قرارداد منظور کی جاتی ہے تو آج ایوان سے تلنگانہ بل کا مسودہ ایوان میں بحث کیلئے پیش کیا جاسکتا ہے‘‘۔ امباٹی رام بابو نے اپنے صحافتی بیان کے آخر میں کہا کہ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر کرن کمار ریڈی اور تلگودیشم پارٹی کے صدر آخر کس لئے اس بل پر بحث کی اجازت نہیں دے رہے ہیں یا متحدہ ریاست کی تائید میں وہ رائے دہی کیوں نہیں چاہتے۔