تلنگانہ 29 ویں ریاست، پارلیمنٹ میں بل منظور

٭ آندھرا پردیش تنظیم جدید بل کی راجیہ سبھا میں شور و غل کے درمیان منظوری،بی جے پی کی تائید
٭ سیما آندھرا کو خصوصی موقف ، تمام علاقوں کی ترقی و بہبود کو بدستور یقینی بنانے حکومت کا تیقن

نئی دہلی 20 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) تلنگانہ کا انڈیا یونین کی 29 ویں ریاست بننا یقینی ہوگیا ہے جیسا کہ پارلیمنٹ نے آج رات آندھرا پردیش کی تقسیم کے ذریعہ اس کی تشکیل کیلئے تاریخی بل کو سیماآندھرا علاقہ کے ساتھ ساتھ ترنمول کانگریس اور شیوسینا کے ارکان کے پُرشور احتجاجیوں کے درمیان منظور کرلیا۔ آندھرا پردیش تنظیم جدید بل 2014 ء کی منظوری کے بارے میں تجسس اُس وقت ختم ہوگیا جب بی جے پی نے کئی اعتراضات اُٹھانے کے باوجود اس بل پر حکومت کی حمایت کردی۔

سیماآندھرا ایم پیز کے ساتھ ساتھ بی جے پی کی جانب سے اس علاقہ سے ’’انصاف‘‘ کیلئے مطالبات پر بظاہر ردعمل میں وزیر اعظم منموہن سنگھ نے آندھرا پردیش سے بننے والی ریاستوں کیلئے چھ نکاتی ترقیاتی پیاکیج کا اعلان کیا جس میں سیماآندھرا کو ٹیکس ترغیبات کے بشمول خصوصی زمرے کا درجہ عطا کرنا شامل ہیں۔ صدر کانگریس سونیا گاندھی کی سیماآندھرا کو پانچ سال کیلئے خصوصی زمرے کا موقف دینے کی وزیر اعظم سے درخواست نے ایسا لگتا ہے کہ اس مسئلہ کی یکسوئی کردی اور بی جے پی ساتھ ہوگئی۔ ڈاکٹر سنگھ نے نشاندہی کی، ’’مجھے امید ہے یہ اضافی اعلانات نہ صرف تشکیل تلنگانہ بلکہ سیماآندھرا کی بدستور خوشحالی اور بہبود کیلئے بھی ہمارے پُر استقلال عہد کا اظہار کریں گے‘‘۔

ڈاکٹر سنگھ اور اُن کے ساتھ وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے کے اطراف بھی کانگریسی ارکان نے حفاظتی حصار بنالیا تھا کیونکہ سیماآندھرا علاقہ کے علاوہ ٹی ایم سی اور شیو سینا کے ارکان ایوان کے وسط میں تیزی سے جمع ہورہے تھے اور ٹی ایم سی ارکان تو کاغذات پھاڑ کر ایوان کے فلور پھینکنے لگے تھے۔ سی پی آئی۔ ایم ارکان نے بطور احتجاج واک آؤٹ کیا۔ ایوان بالا پانچ گھنٹے کی کارروائی کے دوران عملاً میدان جنگ کا منظر پیش کررہا تھا، جہاں سات مرتبہ التواء دیکھنے میں آیا جبکہ ارکان نے نعرہ بازی کی اور کاغذات پھاڑ کر لوک سبھا کی جانب سے منگل کو منظورہ اس بل کو غیر قانونی قرار دیا۔ مباحث میں بھی حکومت کو سبکی کی صورتحال کا سامنا ہوا جب مرکزی وزیر چرنجیوی نے جن کا تعلق سیما آندھرا علاقہ سے ہے، تلنگانہ پر فیصلے کی مخالفت کی جس پر بی جے پی کو تضحیک کا موقع ملا، جس نے تعجب کیا کہ آیا مجلس وزراء کا کوئی رکن اس سے مستعفی ہوئے بغیر خود اپنی حکومت کے کسی فیصلے کی مخالفت کرسکتا ہے۔ جب یہ واضح ہونے لگا کہ تلنگانہ بل حقیقت بننے جارہا ہے کیونکہ بی جے پی کی پیش کردہ زیادہ تر ترامیم کی یا تو نفی کردی گئی یا اُن سے دستبرداری اختیار کرلی گئی،

سی پی آئی ۔ ایم اور ترنمول کانگریس نے برسر اقتدار پارٹی اور اصل اپوزیشن کے درمیان ’’گٹھ جوڑ‘‘ کا الزام عائد کیا۔ وزیر جئے رام رمیش جو تلنگانہ پر فیصلہ سازی عمل میں اس مسئلہ کیلئے تشکیل شدہ وزراء گروپ (جی او ایم) کے رکن کی حیثیت سے کلیدی شخص رہے، انہوں نے بار بار مختصر مداخلت کے ذریعہ مختلف النوع مسائل پر ارکان کی تشویش کو دور کیا۔ وزیر قانون کپل سبل نے کہا کہ تلنگانہ کی تشکیل کا وقت آگیا ہے۔ ’’یہ تاریخی فیصلہ کرنے کا وقت آچکا ہے … دونوں علاقوں کے تمام عوام کو مطمئن کرنا نہایت مشکل ہے‘‘۔ ڈپٹی چیرمین پی جے کورین نے رائے دہی کیلئے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے اس عذر کو قبول کیا کہ ایوان میں نظم نہیں ہے۔ لوک سبھا کے برخلاف جہاں اس بل کو بہت مختصر مباحث کے بعد منظور کیا گیا، راجیہ سبھا میں باریک بینی سے بحث ہوئی جو لگ بھگ تین گھنٹے پر محیط رہی حالانکہ عدیم النظیر احتجاج ہوتا رہا جس میں مخالف تلنگانہ ارکان بڑے پلے کارڈس کے ساتھ ایوان کے وسط میں دندناتے رہے اور بعض اوقات کرسی صدارت کا ماند کردیا۔

اسی طرح ٹیلی ویژن بلیک آؤٹ کے برخلاف جو لوک سبھا میں کارروائی کے دوران دیکھنے میں آیا تھا، راجیہ سبھا ٹی وی پر اُس طرح کی ’’فنی خرابی‘‘ نہیں پیش آئی، جس نے کارروائی براہ راست نشر کی۔ پوری کارروائی کے دوران غم و غصہ اور زبردست ڈرامہ جاری رہا جس میں رکن کے وی پی رام چندر راؤ نے ایوان کے وسط میں دھرنا دیا اور ترنمول ارکان نعرے بلند کررہے تھے ’’پھاڑو اور پھینک دو‘‘۔ آج ایوان بالا سے کسی رکن کی معطلی نہیں ہوئی جو اُس کے برخلاف ہیں جو کچھ لوک سبھا میں پیش آیا جہاں مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے 16 سیما آندھرا ارکان کو کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ بی جے پی نے بل کی تائید کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا کہ سیما آندھرا علاقہ کو انصاف ملے اور ’’ناقص‘‘ قانون سازی منظور نہ ہونے پائے۔ اصل اپوزیشن پارٹی نے حکومت پر اس لئے بھی تنقید کی کہ اس بل کی منظوری سے تمام حاملین مفاد کو ساتھ لئے بغیر بے ڈھنگے پن سے نمٹا گیا۔ بی جے پی کے وینکیا نائیڈو نے کہا، ’’تلنگانہ اور آندھرا پردیش دونوں برادران ہیں اور تلگو بولتے ہیں۔

تلنگانہ کے عوام تلنگانہ چاہتے ہیں، ہم ہاں کہہ رہے ہیں … ہم ملک کو تقسیم نہیں کررہے ہیں، ہم صرف ایک ریاست کو تیز ترقی کیلئے منقسم کررہے ہیں‘‘۔ نائیڈو نے کانگریس کو تلنگانہ کی تشکیل میں تاخیر اور اس مسئلہ پر ’’ووٹ بینک‘‘ اور ’’موقع پرستانہ‘‘ سیاست چلانے کی مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اس سارے معاملے میں یہی ’’حقیقی خاطی‘‘ ہے۔ اپنے ساتھی کی تائید کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر ارون جیٹلی نے کہا، ’’ہم تلنگانہ کی تشکیل کے حامی ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ واجبی اور قانونی طور پر قابل قبول بل منظور کیا جائے‘‘۔ ’’مجھے کافی مایوسی ہے جس طرح یو پی اے حکومت نے اس تشکیل کا عمل انجام دیا ہے،‘‘ جیٹلی نے یہ ریمارک کیا، اس طرح دیگر ایوان سے ارکان کے اخراج، ریاستی اسمبلی میں اس تجویز کو مسترد کیا جانا اور دیگر باتوں کو اُجاگر کیا۔ تشکیل تلنگانہ کیلئے اعلامیہ کی تاریخ اور مقررہ تاریخ کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج وسائل کے تعلق سے نائیڈو کی تشویش کا جواب دیتے ہوئے شنڈے اور رمیش دونوں نے انہیں یقین دلایا کہ حکومت اس معاملے پر توجہ دے گی اور اس ضمن میں وزیر اعظم کے بیان کا حوالہ دیا۔ وزیر اعظم نے اپنے بیان میں نشاندہی کی کہ آندھرا پردیش سے بننے والی ریاست میں ممکنہ خلیج وسائل کا پہلے ہی سال میں معمول کے مرکزی بجٹ برائے 2014-15 ء میں تلافی کی جائے گی۔ یہ خلیج مقررہ تاریخ اور 14 ویں فینانس کمیشن کی سفارشات کی حکومت ہند کی جانب سے قبولیت کے درمیان کی مدت کے دوران پیدا ہوسکتی ہے۔