تلنگانہ اور مہاراشٹرا کے درمیان 3 آبپاشی پراجکٹس کو منظوری دیتے ہوئے دونوں ریاستوں کے چیف منسٹرس کے چندرشیکھر راؤ اور دیویندر فرنویس نے معاہدوں پر دستخط کئے۔ ریاست تلنگانہ کو آبپاشی شعبہ کے لئے پانی کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود تلنگانہ حکومت نے مہاراشٹرا کے ساتھ معاہدہ کرکے پانی کی سربراہی کے ذریعہ بین ریاستی تعلقات کو مضبوط بنانے کا ادعا کیا ہے۔ اپوزیشن کانگریس نے اس معاہدہ کی مخالفت کرتے ہوئے اس طرح کے آبپاشی پراجکٹس میں بھاری رشوت خوری کے الزامات عائد کئے ہیں۔ آبپاشی شعبہ ہی ایک ایسا شعبہ ہے جہاں لین دین کے معاملے کسانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کئے جاتے ہیں۔ آبپاشی پراجکٹس کی ازسرنو تیاری کے نام پر بھی ریاستی خزانے پر بھاری بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ کانگریس نے ان پراجکٹس کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے پراجکٹس کی ری ماڈلنگ پر وائٹ پیپر جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ نے اب تک ریاست کے دیگر شعبوں کو ترقی دینے سے زیادہ آبپاشی اُمور پر توجہ دی ہے۔ کانگریس کے الزام پر یقین کرلیا جائے تو آبپاشی پراجکٹس میں بڑے پیمانہ کی بدعنوانیوں کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے۔ ریاست آندھراپردیش میں برسوں حکمرانی کے فرائض انجام دینے والی کانگریس کے دور میں بھی آبپاشی پراجکٹس ہوئے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ کانگریس نے اپنے دور حکومت میں انجام دیئے گئے آبپاشی پراجکٹس میں بدعنوانیاں ہونے کا در پردہ اعتراف کرلیا ہے۔
دونوں ریاستوں مہاراشٹرا اور تلنگانہ کو گوداوری اور دریائے کرشنا کے طاس میں آنے والی اراضیات کو سیراب کرنے کے لئے باہمی معاہدے کرنے کئے گئے ہیں۔ پانی کی تقسیم کا مسئلہ حل کرنے کے لئے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے اس معاہدہ کو پوری خوش دلی سے انجام دیا ہے تو ریاست کے کسانوں کا اس میں کوئی نقصان بھی نہ ہونے کا اُنھوں نے بھرپور خیال ضرور رکھا ہوگا۔ آبپاشی کے ذریعہ معاشی ترقی کو یقینی بنانا ہر حکومت کی پالیسی کا حصہ ہوتا ہے۔ سالانہ بجٹ میں بھی حکومتوں کی جانب سے آبپاشی پراجکٹس کے لئے خاص فنڈس مختص کئے جاتے ہیں۔ دونوں ریاستوں تلنگانہ اور مہاراشٹرا کے درمیان اس معاہدہ کے بعد تقریباً 30,000 ہیکٹرس اراضی کو سیراب کرنے کا موقع ملے گا اور یہ پراجکٹس ودربھا علاقہ کے کسانوں کے فائدہ کے لئے ہیں۔ مگر آبپاشی پراجکٹس میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ پراجکٹس جس علاقہ میں ہوتے ہیں پانی کی سربراہی سے صرف قریبی مواضعات ہی استفادہ کرتے ہیں اور ماباقی علاقوں کے کسانوں کو شکایت رہتی ہے کہ انھیں ان کے حصہ کا پانی حاصل نہیں ہورہا ہے لیکن چیف منسٹر تلنگانہ اور چیف منسٹر مہاراشٹرا نے کسانوں کو ہونے والی مشکلات کا خیال رکھ کر ہی پانی کی سطحوں کے مطابق ہر ایک پراجکٹ کی تیاری کو یقینی بنانے کا عہد کیا ہے۔ اگر تلنگانہ کی اپوزیشن پارٹیوں نے ان پراجکٹس کے ذریعہ تلنگانہ کو مہاراشٹرا کے پاس گروی رکھنے کی بات کہی ہے تو اس کے تعلق سے آگے چل کر مسائل پیدا ہوں گے۔ حکومت تلنگانہ کو ایسا کوئی قدم نہیں اُٹھانا چاہئے جس سے آئندہ ریاست کے کسانوں کے مفادات پر آنچ آتی ہو۔
اپوزیشن کے طور پر کانگریس نے ان معاہدوں کو مسترد کردیا ہے مگر اس کے پیچھے حقیقت کیا ہے اس کے لئے حکومت تلنگانہ کو واضح رپورٹ جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بین ریاستی پراجکٹس پر گوداوری ٹریبونل 1979 ء کے تحت رکھی جانی چاہئے۔ اس کے لئے ایک بین ریاستی بورڈ بھی ہونا چاہئے جس میں ریاستی اور مرکزی وزراء کو رکن بناکر دونوں ریاستوں کے چیف منسٹروں کو چیرمین شپ دی جائے۔ اس طرح کے بورڈ کی تجویز کو قطعیت دی جاکر پراجکٹس کی عاجلانہ یکسوئی اور بدعنوانیوں سے پاک تعمیرات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے۔ کسی بھی پراجکٹ کی تکمیل کے لئے باہمی تعاون کا ہونا لازمی ہوتا ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ نے اپنی پڑوسی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ اور خوشگوار تعلقات کو فروغ دینے کے حصہ کے طور پر حکومت مہاراشٹرا کے ساتھ آبپاشی پراجکٹس پر دستخط کئے ہیں تو اس میں خود تلنگانہ کے عوام کے مفادات کا کوئی نقصان نہیں ہونا چاہئے۔ تلنگانہ ریاسچت اس دریا کا پانی مہاراشٹرا کے بعد استعمال کرتی ہے اور یہ تلنگانہ سے بہہ کر آندھراپردیش سے گزرتے ہوئے خلیج بنگال میں شامل ہوتا ہے۔ پانی کو ترقیاتی کاموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو دونوں ریاستوں کے لئے اہم ہے۔ اس طرح پانی کی تقسیم کے مسئہ کادوستانہ حل نکالا جاتا ہے تو یہ سب کے لئے ایک بہترین مثال بھی ہوسکتی ہے۔