تلنگانہ کے 17 پارلیمانی حلقوں کی رائے دہی کے ضمن میںخدشات میں مزید اضافہ : ششی دھر ریڈی

پانچ بجے کے بعد نظام آباد حلقہ میں دو لاکھ 19 ہزار 416 ووٹوں کا اضافہ ، اعداد و شمار میں فرق پر اظہار تشویش
حیدرآباد۔یکم ‘ مئی (سیاست نیوز) تلنگانہ کے 17پارلیمانی حلقوں میں ہونے والی رائے دہی کے سلسلہ میں پیدا ہونے والے خدشات میں اب مزید اضافہ ہونے لگا ہے کیونکہ صدرنشین الیکشن کمیشن کوآرڈینیشن کمیٹی کانگریس ایم ششی دھر ریڈی نے چیف الکٹورل آفیسر تلنگانہ کو تفصیلی مکتوب روانہ کرتے ہوئے 17پارلیمانی حلقوں میں رائے دہی کے فیصد میں آنے والے فرق کے متعلق خدشات کا اظہار کیا ۔ ایم ششی دھر ریڈی کی جانب سے روانہ کردہ مکتوب میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ ریاست کے 17پارلیمانی حلقو ںمیں رائے دہی کا مجموعی فیصدکیا رہا اور رائے دہی کے دن شام 5بجے کے بعد کتنے رائے دہندوں نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے۔ انہو ںنے جو مکتوب روانہ کیا ہے اس کی تفصیلا ت کا جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ رائے دہی کے دن شام بجے تک کے رائے دہی کے فیصد کا جو اعلان کیا گیا تھا وہ 59.06 تھا جبکہ دوسرے دن مجموعی فیصد قرار دیتے ہوئے 64.32 فیصد رائے دہی کے اعداد و شمار جاری کئے گئے ۔انہو ںنے بتایا کہ تمام 17پارلیمانی حلقوں میں 5.26 فیصد کے مجموعی اضافہ کا جائزہ لیا جائے تو 15لاکھ 36ہزار 784 ووٹ شام 5بجے کے بعد ڈالے گئے ۔ ایم ششی دھر ریڈی نے بتایا کہ نظام آباد فیصد کے متعلق جو تفصیلات درج کی گئی تھیں اس میں 14.13فیصد کا اضافہ کیا گیا اور اس اعتبار سے نظام آباد حلقہ پارلیمنٹ میں شام 5بجے کے بعد 2لاکھ 19ہزار416ووٹوں کا استعمال کیا گیا جو کہ فی مراکز رائے دہی 130ووٹ ہوتے ہیں۔تلنگانہ کے 17 پارلیمانی حلقو ںمیں 5بجے کے بعد تبدیل ہونے والے اعداد وشمار میں نظام آباد حلقہ پارلیمنٹ سرفہرست ہے جہاں 14.13 فیصد کا فرق دکھا گیا ہے اور اس حلقہ پارلیمنٹ سے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی دختر کے کویتا مقابلہ کر رہی ہیں۔ تمام حلقہ جات پارلیمان میں الیکشن کمیشن کی جانب سے 5بجے کے فیصد کے بعد دوسرے دن جاری کئے جانے والے فیصد میں اضافہ کی نشاندہی کی گئی جبکہ حلقہ پارلیمنٹ چیوڑلہ کا جو مجموعی فیصد جاری کیا گیا اس میں دوسرے دن تخفیف کی گئی اور کہا جا رہاہے کہ اس ایک حلقہ میں رائے دہی 5بجے کے بعد نہیں ہوئی بلکہ بالواسطہ طور پر یہ تاثر دیا جا رہاہے کہ اس حلقہ میں مستعملہ ووٹوں میں کمی آئی ہے۔حلقہ پارلیمنٹ چیوڑلہ میں دوسرے دن جاری کئے گئے اعداد و شمار میں تبدیلی کے ساتھ یہ کہا گیا کہ وہاں 0.58فیصد مجموعی فیصد میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے جو کہ 14ہزار146 ووٹ ہوتے ہیں اور اس اعتبار سے ہر مرکز رائے دہی سے 5ووٹ کم ہوئے ہیں۔انہو ںنے حلقہ پارلیمان سکندرآباد اور کھمم میں آنے والے ووٹوں کے فرق اور دوسرے دن تبدیل ہونے والے اعداد وشمار کی تفصیلات بھی فراہم کی اور کہا کہ سابق میں تلنگانہ راشٹر سمیتی حکومت کی جانب سے انتخابی دھاندلیوں کی کئی شکایات موجود ہیں جن میں مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے انتخابات کے دوران خامیوں سے بھری فہرست رائے دہندگان کے استعمال کے علاوہ دیگر شکایات موجود ہیں۔انہو ںنے ادارہ جات مقامی کے انتخابات میں 27فیصد رائے دہندوں کے ناموں کو حذف کئے جانے کی شکایات کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ کانگریس نے اس مسئلہ سے بھی الیکشن کمیشن آف انڈیا کو واقف کروایا تھا۔انہو ںنے بتایا کہ سابقہ ریکارڈ س اور شکایات کی بنیاد پر کانگریس پارٹی ہی نہیں بلکہ ریاست کے عوام کو بھی رائے دہی کے فیصد میں آنے والی تبدیلی کے متعلق کئی خدشات پائے جانے لگے ہیں کیونکہ عوام جمہوری اصولوں کے خاتمہ کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں اسی لئے ان خدشات سے الیکشن کمیشن کو واقف کروانا وہ اپنی ذمہ داری تصور کرتے ہیں۔انہو ںنے چیف الکٹورل آفیسر کو روانہ کردہ مکتوب میں بتایا کہ ان کی کمیٹی کی جانب سے 15 اپریل کے بعد سے رائے دہی کے عمل کا جائزہ لیا جاتا رہاہے اور اس دوران مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں سے تبادلہ خیال کیا گیا اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ مراکز رائے دہی کے سطح پر رائے دہی کے فیصد اور 5سے 6بجے کے درمیان ہونے والی رائے دہی کا جملہ فیصد حاصل کیا جائے۔انہوں نے چیف الکٹورل آفیسر سے خواہش کی کہ وہ مطلوبہ تفصیلات کی فراہمی کے اقدامات کو یقینی بنائیں تاکہ رائے دہی کے فیصد میں ریکارڈ کی جانے والی تبدیلی کا جائزہ لیا جاسکے۔ایم ششی دھر ریڈی نے خواہش کی کہ تمام 17پارلیمانی حلقوں کے ریٹرننگ آفیسرس اور اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسرس کی جانب سے چیف الکٹورل آفیسر کو وصول ہونے والی رپورٹس حوالہ کی جائیں۔علاوہ ازیں تمام مراکز رائے دہی کے اندرونی حصہ میں کی گئی ویڈیو ریکارڈنگ کی سی ڈی اور مرکز رائے دہی پر 5بجے کے بعد موجوود رہنے والی قطاروں کی سی ڈی بھی حوالہ کی جائے۔