تلنگانہ کے 17 لوک سبھا حلقوں سے کانگریس کا ایک بھی مسلم امیدوار نہیں

اسمبلی انتخابات میں 8 تا 10 امیدواروں کو ٹکٹ کا امکان ، کئی نام زیر غور ، ہائی کمان کو فیصلہ کا اختیار
حیدرآباد۔یکم اپریل، ( سیاست نیوز) کانگریس پارٹی کی جانب سے2014 اسمبلی انتخابات میں تقریباً 8تا10 اقلیتی امیدواروں کو ٹکٹ دیئے جانے کا امکان ہے۔ نئی دہلی میں پارٹی کی سنٹرل اسکریننگ کمیٹی نے تلنگانہ امیدواروں کے ناموں کو قطعیت دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسکریننگ کمیٹی نے لوک سبھا کی 17نشستوں میں سے کسی ایک پر بھی اقلیتی امیدوار کو ٹکٹ دینے کی تائید نہیں کی کیونکہ پارٹی سروے کے مطابق کوئی اقلیتی امیدوار اس موقف میں نہیں کہ وہ موجودہ سخت ترین مقابلہ میں کامیابی حاصل کرسکے لہذا پارٹی نے اسمبلی نشستوں میں نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اضلاع میں 6مسلم قائدین اسمبلی حلقوں سے امیدوار ہوں گے جبکہ حیدرآباد میں دو تا چار قائدین کو ٹکٹ دیا جاسکتا ہے۔ پردیش کانگریس کمیٹی نے مسلم امیدواروں کے حق میں جو نام پیش کئے ہیں ان میں اکثر حلقوں سے ایک سے زائد ناموں کی تجویز پیش کی گئی اور قطعی فیصلہ کا اختیار ہائی کمان پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نظام آباد کے حلقہ اسمبلی کاماریڈی سے سینئر قائد محمد علی شبیر کے فرزند محمد الیاس کی امیدواری تقریباً طئے بتائی جارہی ہے۔ ان کے علاوہ راما گنڈم اسمبلی حلقہ سے محمد بابر، محبوب نگر سے سید ابراہیم اور عبید اللہ کوتوال، کاغذ نگر سے سینئر قائد سلطان احمد کے فرزند ذوالفقار احمد، کھمم سے یونس سلطان اور ورنگل ( ویسٹ ) اسمبلی حلقہ سے رضی الدین، محمد اسمعیل اور مولانا سید غلام افضل بیابانی خسرو پاشاہ کے نام زیر غور بتائے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ حیدرآباد کے بعض اسمبلی حلقوں خاص طور پر پرانے شہر کے حلقوں سے اقلیتی قائدین کو ٹکٹ دیئے جانے کا امکان ہے۔ اسی دوران ہائی کمان نے امکانی امیدواروں کے سلسلہ میں صدر تلنگانہ پردیش کانگریس پونالہ لکشمیا اور الیکشن کمیٹی کے ارکان سے قطعی مشاورت کی ہے۔ توقع ہے کہ ڈگ وجئے سنگھ اندرون دو یوم صدر کانگریس سونیا گاندھی سے مشاورت کے ذریعہ اقلیتی امیدواروں کے ناموں کو قطعیت دے دیں گے۔ تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی نے انتخابی منشور میں اقلیتوں سے متعلق اُمور کی شمولیت کو بھی قطعیت دے دی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تعلیم و روزگار میں اقلیتوں کو 4فیصد تحفظات کی برقراری، اسکالر شپ، فیس ری ایمبرسمنٹ کے علاوہ تعلیمی و معاشی ترقی سے متعلق وعدے انتخابی منشور میں شامل ہوں گے۔