عادتاً تم نے کردیے وعدے
عادتاً ہم نے اعتبار کیا
تلنگانہ کے وزراء
چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے اپنے وزراء کو ہدایت دی کہ وہ اپنے اپنے حلقوں کے مسائل کی یکسوئی میں پیش پیش رہیں۔ عوام سے رابطہ کاری کو یقینی بناکر ان کی ضرورتوں کو پورا کریں۔ باقاعدہ طورپر عوام سے ربط رکھنے کو معمول بنالیا جائے ۔ سال 2018 ء ریاست تلنگانہ کی حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کیلئے عوام کا دل جیتنے کا سال ہے ۔ آئندہ سال عام انتخابات میں تلنگانہ کے عوام کو اپنے نئے قائد کے انتخاب کے لئے پھر سے پولنگ بوتھ حاضر ہونا ہوگا ۔اس لئے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ اس نئے سال میں پارٹی کی نیک نامی اور عوام میں پائی جانے والی مقبولیت کو مزید مستحکم بنانا چاہتے ہیں۔ جب لیڈر اپنے رائے دہندوں کے قریب ہوتا ہے ان کے مسائل کی یکسوئی پر توجہ دیتا ہے تو یہ ایک بہتر حکمرانی کی شاندار مثال قرار دی جاتی ہے ۔بلاشبہ چیف منسٹر کی ہدایت کے بعد کئی وزراء نے سرگرمی کا مظاہرہ شروع کیا ہے اور وہ سرکاری پروگراموں میں حصہ لیکر اپنے حلقوں میں اپنی موجودگی اور عوام سے قربت کا ثبوت دے رہے ہیں ۔ روزانہ کی اساس پر نہ سہی وقفہ وقفہ سے وزراء اپنے اضلاع میں سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ چیف منسٹر نے تلنگانہ میں اراضی سروے کے ذریعہ ایک بہتر ڈیٹا تیار کیا ہے ۔ ایک بہتر نظم و نسق ہی ریاست کی ترقی کاضامن ہوتا ہے ۔اب تک چندرشیکھر راؤ نے اپنی حکومت کے نظم و نسق کو موثر بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ ان کی ہدایت پر ہی بعض وزراء نے خاص کر ڈپٹی چیف منسٹر کڈیم سری ہری ، وزراء میں ایٹالا راجندر ، ٹی ہریش راؤ ، ٹی ناگیشور راؤ ، ٹی سرینواس یادو ، اندرا کرن ریڈی ، جوپلی کرشنا راؤ اور دیگر نے ہر ہفتہ اپنے حلقہ کے عوام کے درمیان موجود رہ کر ان کے مسائل کی یکسوئی پر توجہ دی ہے ۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی نے عوامی رابطہ کاری کے ذریعہ چیف منسٹر اور ان کے منصوبوں کو بروئے کار لانے میں اہم رول ادا کیاہے ۔ کے سی آر کابینہ کے کئی وزراء نے عوام سے ملاقات کا ایک ٹائم ٹیبل بھی بنالیا ہے ۔ سماج کے ہر طبقہ کے لئے متعدد بہبودی اور ترقیاتی اسکیمات نے ہی ٹی آر ایس حکومت کو عوام کے اندر مقبول بنادیا ۔ اب پارٹی کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے متعدد اسکیمات کو موثر طورپر روبہ عمل لاکر انھیں عوام کے حق میں کامیاب بنائے ۔ اس ایک سال کے دوران ہی ٹی آر ایس قیادت کو اپنی چار سال کی کارکردگی کا ثبوت دینا ہے تاکہ عوام آئندہ سال اسے دوبارہ منتخب کرنے کے بارے میں کسی قسم کے تحفظات نہ رکھیں ۔ چیف منسٹر نے سماج کے تمام طبقات کیلئے جو اقدامات کئے ہیں ان پر عمل آوری کو یقینی بنایا گیاہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ چیف منسٹر اپنے وعدوں پر پورے اُترنے میں ناکام رہے ہیں ۔ چیف منسٹر نے ریاست تلنگانہ کے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھاکہ وہ اقلیت کے غریب افراد کو 12فیصد تحفظات دیں گے ۔ ان کا یہ وعدہ ہی تلنگانہ تحریک میں جان پیدا کردیا اور انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی ملی ۔ گزشتہ چار سال سے چیف منسٹر نے صرف وعدہ پر غور ہی کیا ہے ، عمل نہیں ۔ ان کا وعدہ قانون اور مرکزی حکومت کے درمیان معلق ہے ۔ اس ایک سال میں چیف منسٹر کو مسلمانوں کیلئے اپنے وعدہ کے مطابق کام کرکے دکھانے ہوں گے ۔ اگر مسلمانوں نے ٹی آر ایس سے ہاتھ کھینچ لیاتو پارٹی کی ساکھ کے بارے میں واضح طورپر کچھ کہا نہیں جاسکے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چیف منسٹر نے اقلیتوں کی بہبود کے لئے دیگر کام انجام دیئے ہیں ان میں سے بعض اسکیمات کی ستائش بھی کی جارہی ہے ۔مسلم طلباء کی بیرون ملک تعلیم کیلئے اوورسیز اسکالرشپ اسکیم کے فوائد سے کئی طلباء استفادہ کرہے ہیں مگر ہزاروں بچے ایسے ہیں جو ہنوز اسکالرشپ کی منظوری کے باوجود رقم کے حصول کا انتظار کررہے ہیں۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں وعدہ کیا تھاکہ وہ ریاست میں بلاوقفہ برقی سربراہی کو یقینی بنائیں گے ۔ وہ اپنے وعدہ میں کامیاب ہیں ۔ ان کے عزم کی ستائش کرتے ہوئے انھیں مبارکباد دی جانی چاہئے کہ انھوں نے برقی سربراہی کو یقینی بنایا ۔ اب انھوں نے ریاست کے کسانوں کو 24 گھنٹے برقی سربراہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نئے سال میں کسانوں کے لئے ٹی آر ایس حکومت کا تحفہ ہے ۔ ریاست تلنگانہ کے عوام کیلئے ایک مخلص اور دیانتدار لیڈر ملتا ہے تو کامیابی یقینی سمجھی جاتی ہے۔ اب تلنگانہ میں وعدوں کی طویل فہرست کے درمیان عملی کام کرنے کیلئے وقت کم ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ چیف منسٹر اپنے اصلی وعدہ12 فیصد تحفظات کی جانب توجہ دے کر سرگرمی کے ساتھ اس کو پورا کردکھائیں۔ اپوزیشن پارٹیوں نے حکمراں جماعت کو گھر بھیجنے کے خوابوں کے سوا کچھ کام نہیں کیا ہے ۔ تلنگانہ میں سیاسی ہلچل پیدا کرنے کی کوشش کرنے والی بی جے پی قیادت سے بھی چیف منسٹر کے سی آر کو ہوشیار ہونا ہوگا ۔ اگر انھوں نے درپردہ طورپر اپنا سیکولر امیج خراب کرلیا تو پھر ریاست میں ایسی قیادت کے ساتھ عوام کیا برتاؤ کرتے ہیں وہ چندرابابو نائیڈو کی تاریخ سے سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ بی جے پی سے ہاتھ ملانے کے بعد ان کا سیاسی گراف کہاں پہونچ گیا ہے یہ آپ تمام جانتے ہیں۔