حیدرآباد۔/21فبروری، ( سیاست نیوز ) ٹی آر ایس کے رکن پارلیمنٹ جی ویویک نے آج وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملاقات کی۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں تقسیم آندھرا پردیش سے متعلق بل کی منظوری پر وزیر اعظم سے اظہار تشکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس پارٹی اور یو پی اے حکومت نے تلنگانہ عوام سے جو وعدہ کیا تھا اس کی تکمیل کی گئی ہے اور تلنگانہ کے عوام کانگریس پارٹی کے ہمیشہ احسان مند رہیں گے۔ ویویک نے تلنگانہ بل کی منظوری میں تعاون کرنے والی دیگر جماعتوں سے بھی اظہار تشکر کیا۔ انہوں نے وزیر اعظم سے اپیل کی کہ تلنگانہ کی پسماندگی کے خاتمہ کیلئے مرکز کی جانب سے خصوصی پیاکیج کا اعلان کیا جائے۔ ٹی آر ایس کے رکن اسمبلی ایس ستیہ نارائنا کے ہمراہ وزیر اعظم سے اس ملاقات میں ویویک نے عادل آباد ضلع کے مسائل پر بھی نمائندگی کی۔ انہوں نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ جواہر لال نہرو اربن رینیول مشن کے تحت راما گنڈم میونسپلٹی کیلئے 135کروڑ روپئے منظور کئے جائیں۔ انہوں نے اس علاقہ کی پسماندگی اور ضرورتوں کے بارے میں وزیراعظم کو واقف کرایا۔ بعد میں اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ویویک نے کہا کہ ٹی آر ایس قائد چندرشیکھر راؤ کی گذشتہ 14برسوں کی مسلسل جدوجہد کے نتیجہ میں تلنگانہ تشکیل کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ انہوں نے اسے ٹی آر ایس اور تلنگانہ عوام کی کامیابی قرار دیا۔ ویویک نے تلنگانہ ایجی ٹیشن کے دوران اپنی جانیں قربان کرنے والے نوجوانوں اور طلباء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے علحدہ تلنگانہ ریاست کو شہیدان تلنگانہ کے نام معنون کیا۔
انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ نئی ریاست تلنگانہ میں تمام طبقات یکساں طور پر ترقی کریں گے اور تلنگانہ ملک کی ترقی یافتہ ریاستوں میں شامل ہوگا۔ ویویک نے کہا کہ چندر شیکھر راؤ نے نامساعد حالات میں بھی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے علحدہ ریاست کے حصول میں کامیابی حاصل کی ہے۔انہوں نے کہا کہ دستور کی دفعہ 3کے تحت مرکز کو ریاستوں کی تقسیم کے جو اختیارات حاصل ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی ریاست میں آبادی کی اقلیت کو علحدہ ریاست کے مطالبہ سے محروم نہ کیا جائے۔ویویک نے کہا کہ اگر یہ اختیار مرکز کو نہ دیا جاتا توکوئی بھی ریاست تقسیم نہ ہوپاتی۔ انہوں نے ریاست کی تقسیم کی مخالفت کرنے پر کرن کمار ریڈی، ایل راجگوپال اور سیما آندھرا کے دیگر قائدین کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ویویک نے کہا کہ سیما آندھرا علاقہ میں عوام تقسیم سے مطمئن ہیں اور دونوں تلگو بولنے والی ریاستیں خوشگوار ماحول میں ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہیں۔