تلنگانہ کو دوسرا مقام

تجارتی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کے لیے موثر فضا بنانے کشادہ دلی اور فراخدلی کی پالیسیوں کے وضع کرنے کے باوجود ریاست تلنگانہ کو عالمی بینک اور ڈپارٹمنٹ آف انڈسٹریل پالیسی اینڈ پرموشن نے سالانہ تجارتی سرگرمیوں میں دوسرا نمبر دیا ہے جب کہ آندھرا پردیش کو پہلا مقام حاصل ہے ۔ ریاست تلنگانہ کو گذشتہ سال پہلا مقام حاصل تھا ۔ اس ایک سال میں پڑوسی تلگو ریاست آندھرا پردیش کو تجارتی مواقع پیدا کرنے والی سرفہرست ریاست میں شمار کیا گیا ہے ۔ تلنگانہ کی ٹی آر ایس حکومت کے لیے یہ غور طلب تبدیلی ہے ۔ اس کی ہزارہا کوششوں کے باوجود ریاست میں عین انتخابی سال سرمایہ کاری کا بہاؤ کمزور پڑ گیا ہے ۔ آندھرا پردیش کے درجہ اول مقام حاصل کرنے کے بعد تلنگانہ دوسرا اور ہریانہ تیسرے مقام پر پہونچ گئے ۔ جھارکھنڈ 4 ، گجرات کو پانچواں مقام ملا ہے ۔ گجرات میں اگرچیکہ تجارتی سرگرمیوں کے لیے اہم مرکز سمجھا جاتا ہے ۔ رینک کے معاملہ میں وہ پیچھے ہوگئی ہے ۔ چھتیس گڑھ جیسی نکسلائٹس سے متاثرہ ریاست کو تجارتی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کرنے والے صنعتکاروں نے منتخب کیا ہے تو یہ ایک حیرانی کی بات ہے ۔ حکومت کی جانب سے بہتر انفراسٹرکچر اور وسیع تر مواقع فراہم کرنے کے علاوہ سیکوریٹی خدمات کو یقینی بنایا جائے تو چھتیس گڑھ جیسی ریاست کو بھی سرمایہ کاری کے لیے منتخب کیا جاسکتا ہے ۔ مدھیہ پردیش کا 7 نمبر ہے ۔ کرناٹک 8 ، راجستھان 9 اور مغربی بنگال کو 10 واں مقام حاصل ہوا ہے ۔ ملک کی ایک اور ریاست میگھالیہ کو 36 واں پوزیشن ملا ہے ۔ عالمی بینک کی سالانہ رپورٹ میں ہندوستان کی ریاستوں کی درجہ بندی کی گئی ہے ۔ مگر مرکز میں نریندر مودی زیر قیادت حکومت کی جانب سے اصلاحات کا عمل تیز کرنے کے دعویٰ کے باوجود رینک حاصل کرنے میں شمالی ریاستوں کا پیچھے ہوجانا غور طلب ہے ۔ شمال مشرقی ریاستوں میں آسام بھی سب سے نیچے چلا گیا ہے ۔ ایسی ریاستوں میں سرمایہ کاری کے بہاؤ کو بہتر بنانے کے لیے فوری طور پر موثر پالیسیوں کو وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔ تجارت کے لیے دوستانہ ماحول کا ہونا لازمی ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات بھی آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے پیچھے رہ گئی ہے تو یہ دونوں تلگو ریاستوں کے لیے قابل فخر بات ہے ۔ دونوں تلگو ریاستوں کے حکمرانوں نے اپنی کارکردگی کو موثر بنانے اور دیانتدارانہ طور پر عوامی خدمت کو یقینی بنایا ہے ۔ بلا شبہ تلنگانہ ایک نو خیز ریاست ہے یہاں صنعتی اور تجارتی پالیسی کو دوستانہ موقف دیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود سرمایہ کاری کا بہاؤ توقع کے مطابق دکھائی نہیں دیتا ۔ گذشتہ سال تلنگانہ کو تجارت کے لیے ایک بہترین ریاست قرار دیتے ہوئے اسے سرفہرست شمار کیا گیا تھا ۔ اس ایک درجہ کم ہوجانے کی وجوہات کا پتہ چلانا ضروری ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اپنی راست نگرانی میں ہر شعبہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے کا دعویٰ کیا ہے ۔ 2016 میں تلنگانہ اور آندھرا پردیش نے تجارت کرنے کے شعبہ میں اول درجہ کی ریاستیں ہونے کا موقف حاصل کیا تھا لیکن اب تلنگانہ ایک قدم پیچھے رہ گیا ہے ۔ تلنگانہ کی صنعتی پالیسی کی از خود ستائش کرتے ہوئے ٹی آر ایس حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس نے نئے صنعتی یونٹوں کے قیام کے لیے بڑے پیمانہ پر سبسیڈیز کی پیشکش کی ہے ۔ اس نے اب تک 7,337 یونٹوں کی منظوری دی ہے ۔ جس کے ذریعہ 1.30 لاکھ کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری ہوگی ۔ حکومت نے قیام تلنگانہ کے 6 ماہ کے اندر ہی TS-IPASS کو متعارف کروایا تھا اس پالیسی نے سارے ملک کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تھی ۔ 7337 یونٹوں کو منظوری دی گئی مگر اس میں سے صرف 4884 یونٹوں میں کام کا آغاز ہوسکا ۔ اس سے ریاست کے 6 لاکھ نوجوانوں کو روزگار حاصل ہوا ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی قیادت میں ریاست کو ملک میں آسانی سے تجارت کرنے کے مقامات میں سرفہرست کا موقف حاصل ہوا ۔ توقع کی جارہی تھی کہ اس طرح درجہ اول کا موقف ملنے کے بعد سرمایہ کاری کے بہاؤ میں اضافہ ہوگا ۔ مگر گذشتہ ایک سال کے دوران سرمایہ کاری میں سست روی دیکھی گئی ہے ۔ ریاست میں صنعتی ترقی کے لیے اراضیات کی کمی نہیں ہے ۔ فارما سٹی ، NIMZ ، ٹیکسٹائیل پارکس ، ایم ایس ایم یو شیڈ پارک اور فوڈ پارکس جیسے میگا پراجکٹس پر عمل آوری کے باوجود ریاست تلنگانہ ، اس سال آندھرا پردیش سے پیچھے ہوگئی ہے تو اس سلسلہ میں ہونے والی سرکاری سطح کی کوتاہیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔