تلنگانہ کا پہلا بجٹ

سب خواب سنہرے تو ہیں تعبیر ہے الٹی
جب وقت عمل آئے تو کیا ہوگا نہ جانے
تلنگانہ کا پہلا بجٹ
نئی ریاست تلنگانہ کا پہلا بجٹ پیش کرتے ہوئے ٹی آر ایس حکومت نے اپنے ابتدائی ایام کی حکمرانی کو بہتر ڈھنگ سے چلانے کا اشارہ دیدیا ہے۔ بجٹ میں چند خوبیوں کے ساتھ بہت کچھ خرابیاں بھی ہیں مگر چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ کو ایک نئی ریاست کا حساب کتاب رکھنا مشکل مرحلہ ہی تھا جس کو انہوں نے آسانی سے کر دکھایا۔ وزیرفینانس ایٹلا راجندر نے سال 2014-15ء کے لئے 1,00,637 کروڑ کے مصارف بجٹ کو پیش کرکے اس میں منصوبہ جاتی مصارف کیلئے 48,648 کروڑ روپئے اور غیرمنصوبہ جاتی مصارف کے لئے 51,989 کروڑ روپئے مختص کیا ہے۔ سرکاری خزانہ کو ٹیکسوں کے ذریعہ حاصل ہونے والے مالیہ کو بڑھانے سے زیادہ ٹیکس دہندگان کو راحت دینے پر توجہ دی گئی ہے۔ اس بجٹ کی پیشکشی کے ساتھ حکومت کے ’’سنہرے تلنگانہ‘‘ خواب کو پورا کرنے کی جانب پہلا قدم اٹھایا گیا ہے۔ وزیرفینانس نے تلنگانہ کے حصول کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانی دینے والے تلنگانہ شہیدوں کیلئے 100 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں۔ 459 شہیدوں کی تیار کردہ فہرست کے مطابق فی کس 10 لاکھ روپئے شہیدوں کے ورثا کو دیئے جائیں گے۔ حقیقت میں تلنگانہ شہدا کی اصل تعداد کے بارے میں متضاد اطلاعات میں حکومت پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ اس نے شہدا کی فہرست تیار کرنے میں بدنیتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں حکومت کو ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی ھی تلنگانہ شہدا کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔ اس خصوص میں مزید نمائندگیاں قبول کرنے کا اعلان کرکے تمام سیاسی پارٹیوں کی بات بھی ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ وزیرفینانس نے تلنگانہ کے نئے بجٹ تعلیم پر تقریباً 1000 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں جو ایک اچھا قدم ہے۔ نئی ریاست کے پسماندہ عوام کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی ایک بہترین کوشش ہے۔ خواندگی کی شرح کو بہتر بنانے کیلئے ٹی آر ایس حکومت نے بجٹ میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے لیکن ریاست کو درپیش سنگین مسئلہ خاص کر برقی بحران سے نمٹنے کیلئے بجٹ میں مختص کردہ رقم ناکافی معلوم ہوتی ہے۔ آئندہ 5 سال میں 20,000 میگاواٹ برقی پیدا کرنے کا وعدہ کرنے والی حکومت نے برقی کیلئے صرف 3241 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں۔ اس مختصر رقم کے ذریعہ حکومت 20,000 میگاواٹ برقی پیدا کرنے کے نشانہ کو کس طرح پورا کرسکے گی یہ ناقابل فہم ہے۔ چھتیس گڑھ سے کیا گیا برقی خریداری معاہدہ بھی آئندہ 3 سال بعد ہی قابل عمل ہوگا۔ اس وقت تک ریاست کے کسانوں کی برقی سربراہی اور شہروں میں برقی سربراہی کا مسئلہ کس طرح حل ہوگا یہ جواب طلب ہے۔ نئی ریاست کی ترجیحات کے مطابق تیار کردہ یہ بجٹ مجموعی طور پر اچھا ہے۔ اس سے روزگار پیدا ہونے میں مدد ملے گی۔ نئی حکومت نے طویل مدتی امکانات کے ساتھ اپنی ترجیحات پر بھی توجہ دی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سرمایہ کاری ریجن کو 90 کروڑ روپئے مختص کیا گیا جس سے حیدرآباد میں آئی ٹی شعبہ کو مزید ترقی دینے میں مدد ملے گی۔ ارکان اسمبلی کو اپنے حلقوں کی ترقی کیلئے جو فنڈ مختص کیا جانا تھا اس میں ایک کروڑ سے بڑھا کر 1.5 کروڑ روپئے کردیا گیا ہے۔ ٹی آر ایس حکومت نے اپنے بجٹ میں ہر طبقہ کے افراد کا خیال رکھا ہے۔ وظیفہ یابوں، بیواؤں کے لئے بھی پنشن اسکیم کے تحت بجٹ مختص کیا۔ ایس سی اور ایس ٹی پر بجٹ میں فراخدلی کا مظاہرہ کیا گیا۔ تاہم اقلیتوں کے لئے صرف 1030 کروڑ روپئے مختص کئے گئے۔ حکومت نے بجٹ میں سڑکوں کی تعمیر، صحت عامہ اور آبپاشی میں خصوصی توجہ دی۔ نئی ریاست کی تعمیر کا عزم حکومت کیلئے سخت آزمائش سے دوچار کرے گا۔ اس آزمائش میں چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، ان کے اس بجٹ اور اسکیمات پر عمل آوری کے بعد برآمد ہونے والے نتائج سے ہی واضح ہوگا۔ ماضی کی خرابیوں کو دور کرکے نئی ریاست کے لئے کام کیلئے حکومت کے ہر ایک فرد کو سنجیدہ اور ٹھوس کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔ حکومت نے جس طرح اپنی اہم اسکیمات اور پروگراموں جیسے ’’کلیان لکشمی‘‘ اور تالابوںکی بحالی، پینے کے پانی کیلئے پائپ لائنوں کو بچھانے کا کام، دلتوں میں اراضی تقسیم کو من و عن روبہ عمل لائے تو یقیناً عوام کو فوائد حاصل ہوں گے۔ تلنگانہ کو سنہرا بنانے کی سمت یہ پہلا قدم نتائج کا منتظر ہے۔