تلنگانہ کابینہ میں توسیع

صرف ہم سے نہیں غیروں سے شناسائی ہے
کیا بری بات ہمیں آپ نے سنوائی ہے
تلنگانہ کابینہ میں توسیع
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ نے اپنی حکومت کے 6 ماہ پورے ہونے پر کابینہ میں توسیع کرتے ہوئے 6 وزراء کو شامل کیا ہے۔ تلنگانہ کی سیاسی صف بندی میں بعض معیوب عوامل بھی دیکھے گئے ہیں۔ تلنگانہ پارٹی میں شامل ہونے کے لئے بعض قائدین نے اپنی سرپرست پارٹیوں کو خیرباد کہہ دیا۔ تلگودیشم سے دو قائدین ٹی آر ایس میں شامل ہوئے۔ انحراف پسندی کے اس عمل کے دوران چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے حوصلے بلند ہوئے اور ان کی سیاسی طاقت میں زبردست اضافہ بھی دیکھا جارہا ہے۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے انھوں نے اب تک اپنے اجتماعی ذہن کے کچھ زاویئے طے کر رکھے ہیں۔ حکمرانی کے فرائض کی انجام دہی کے دوران اپوزیشن کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ حکمراں پارٹی جمہوریت کے معروف اُصولوں سے انحراف کررہی ہے۔ کے چندرشیکھر راؤ پر بھی الزام ہے کہ اُنھوں نے دوسری پارٹیوں پر انحراف کی چھڑی ماری ہے۔ تلنگانہ کابینہ میں شامل کئے گئے 6 نئے چہروں سے عوام اچھی طرح واقف ہیں۔ یہ تمام اپنی سیاسی زندگی کا ایک ملا جلا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ لکشما ریڈی کے ماسوا تمام قائدین سابق وزیر رہ چکے ہیں۔ یہ قائدین سابق میں یا تو تلگودیشم یا کانگریس کی حکومتوں میں منسٹرس تھے۔ تھمولا ناگیشور راؤ کسی بھی ایوان کے رکن نہیں ہیں۔ تلسانی سرینواس یادو نے تلگودیشم کے ٹکٹ پر اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اب انھوں نے ٹی آر ایس میں شمولیت اور کابینہ میں قلمدان حاصل کرنے کے پس منظر میں تلگودیشم اور اسمبلی کی رکنیت دونوں سے استعفیٰ دیا ہے۔ صنعت نگر حلقہ سے منتخب سرینواس یادو دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے عوام سے غیر مانوس نہیں ہیں۔ تھمبولا ناگیشور راؤ ضلع کھمم کے مرد آہن سمجھے جاتے ہیں تو سرینواس یادو کو دارالحکومت حیدرآباد کی معروف شخصیت کہا جاتا ہے۔ کے سی آر نے اپنی کابینہ میں اے اندرا کرن ریڈی کو بھی شامل کیا ہے جو ضلع عادل آباد کے حلقہ اسمبلی نرمل کے رکن اسمبلی ہیں۔ اُنھوں نے بی ایس پی کے ٹکٹ پر مقابلہ کیا تھا اور کامیاب ہوئے تھے۔ بی ایس پی سے استعفیٰ کے بعد ٹی آر ایس کو تلنگانہ کاز کے لئے گلے لگا لیا ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری رکھنے والے اندرا کرن ریڈی کو کانگریس پارٹی اور بعدازاں تلگودیشم میں رہ کر عوام کی خدمات انجام دینے کا اعزاز حاصل ہے۔ کے سی آر کابینہ کے نئے چہروں میں چرلا کولہ لکشما ریڈی بھی ہیں جو ضلع محبوب نگر کے جڑچرلہ حلقہ سے نمائندگی کرتے ہیں۔ اجمیرا چندولال اور جوپلی کرشنا راؤ کا بھی سیاسی ریکارڈ مضبوط ہے۔ ان 6 مضبوط سیاستدانوں کو کابینی رفیق بناکر چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے یہ واضح کردیا ہے کہ ان کی 6 ماہ پرانی حکومت اب ریاست کی ترقی کے لئے تیز گام ہوجائے گی۔ کابینہ میں ایک مضبوط ٹیم شامل ہوتی ہے تو عوامی خدمات کے بہتر آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ کے سی آر کو اپنی پارٹی اور کابینہ میں شامل کئے گئے ان دیگر پارٹیوں کے قائدین کے تجربات سے استفادہ کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ انھوں نے اپنی کابینہ میں خواتین کو موقع نہیں دیا اگرچیکہ کونڈہ سریکھا اور کاوا لکشمی اہم دعویدار سمجھے جارہے تھے۔ البتہ لکشمی کو پارلیمانی سکریٹری بنائے جانے کے اشارے دیئے گئے ہیں۔ کے سی آر نے حیدرآباد میں ٹی آر ایس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے سرینواس یادو کو منسٹری تفویض کی ہے۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن انتخابات سے قبل حیدرآباد میں حکمراں پارٹی کو سیاسی قوت عطا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کا دارالحکومت میں کوئی خاص اثر نہیں ہے۔ نئی کابینہ اور نئے چہروں کے ساتھ چیف منسٹر کو پارٹی کے اندر پیدا ہونے والی ناراضگیوں سے بھی نمٹنا ہے کیوں کہ دیگر پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے 3 قائدین کو ٹی آر ایس میں شامل کرکے انھیں کابینہ کا قلمدان دینا اصل ٹی آر ایس کے جاں فشاں اور محنت کش قائدین کو ناگوار گذرا ہے۔ آنے والے دنوں میں کے سی آر پارٹی کے داخلی مسئلہ سے نمٹنے میں ناکام ہوں تو پھر حکومت کے استحکام کا سوال پیدا ہوگا۔ تلگودیشم سے قائدین کو چھین لینے کا مطلب تلگودیشم کو جوابی کارروائی کا موقع دینا ہے۔ آنے والے دنوں میں خاص کر گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن انتخابات میں اگر بی جے پی ۔تلگودیشم نے اتحاد کے ساتھ زیادہ نشستیں حاصل کی تو ٹی آر ایس کو شدید دھکہ پہونچے گا۔ دل بدلی کا عمل کوئی نیا نہیں ہے۔ مگر تلگودیشم بھی کہنہ مشق پارٹی ہے۔ ٹی آر ایس کو کمزور کرنے کے لئے اس کے ارکان کو راغب کرانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ پارٹیوں میں پھوٹ ڈالنے اور حکومت کرنے کے پینترے سے چندرابابو نائیڈو بھی واقف ہیں۔ بہرحال دودھ اور مکھن دینے والی گائے جب سامنے ہو تو سیاستداں ٹی آر ایس کو ترجیح دیں گے۔ اکثریت کے زور پر اسمبلی کو اپنی مٹھی میں کرلینے کا عمل نیا نہیں ہے۔