تلنگانہ پولٹیکل جے اے سی کیلئے کسی ایک جماعت کی تائید مشکل

ٹی آر ایس قیادت سے ناراضگی ، کور کمیٹی کا عنقریب اجلاس ، انتخابی حکمت عملی طئے کی جائے گی

حیدرآباد۔/8اپریل، ( سیاست نیوز) تلنگانہ پولٹیکل جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس بہت جلد منعقد ہوگا جس میں مجوزہ انتخابات کی حکمت عملی طئے کی جائے گی۔ جے اے سی پر کانگریس اور ٹی آر ایس کی جانب سے مسلسل دباؤ بنایا جارہا ہے کہ وہ انتخابات میں ان کی تائید کریں۔ بی جے پی جس نے تلنگانہ تحریک میں کھل کر حصہ لیا تھا وہ بھی جے اے سی سے تائید کی مانگ کررہی ہے۔ پولٹیکل جے اے سی میں ٹی آر ایس، بی جے پی اور سی پی آئی جیسی جماعتیں شامل تھیں جبکہ کانگریس پارٹی ابتداء میں جے اے سی کا حصہ رہی لیکن بعد میں اس نے علحدگی اختیار کرلی۔ اب جبکہ تمام تلنگانہ حامی جماعتیں علحدہ علحدہ طور پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں لہذا جے اے سی کیلئے کسی ایک جماعت کی تائید دشوار کن فیصلہ بن چکا ہے۔ جے اے سی کے بعض قائدین کو ٹی آر ایس اور بعض کو کانگریس نے اپنے امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اُتارا ہے۔ جے اے سی کے بعض قائدین ریاست کی تقسیم سے متعلق بل کی پارلیمنٹ میں منظوری کے بعد ٹی آر ایس کے سربراہ چندر شیکھر راؤ کے رویہ سے ناراض ہیں کیونکہ انہوں نے جے اے سی کے بعض اہم قائدین کو ٹکٹ دینے سے اتفاق نہیں کیا۔

جے اے سی نے کسی بھی پارٹی کی تائید کرنے سے گریز کیا ہے۔ جے اے سی نے تلنگانہ کو درپیش مسائل پر مبنی منشور تیار کرتے ہوئے تمام پارٹیوں کے حوالے کیا تاکہ تلنگانہ ریاست میں اس پر عمل کیا جاسکے۔ جے اے سی کے ذرائع نے بتایا کہ مختلف جماعتوں کے دباؤ کے باوجود جے اے سی کسی ایک پارٹی کی تائید کے موقف میں نہیں ہے بلکہ وہ تلنگانہ حامی امیدواروں کو کامیاب بنانے کی اپیل پر اکتفاء کرے گی۔ اس مسئلہ کا جائزہ لینے کیلئے پروفیسر کودنڈا رام نے ایک کور کمیٹی تشکیل دی ہے اور کور کمیٹی کا بہت جلد اجلاس منعقد ہوگا جس میں حکمت عملی کو قطعیت دی جائے گی۔جے اے سی سے وابستہ ایک قائد نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ پروفیسر کودنڈا رام اور دیگر قائدین ٹی آر ایس قیادت کے رویہ سے نالاں ہیں اور جے اے سی کی جانب سے ٹی آر ایس کی تائید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تاہم جے اے سی سے وابستہ قائدین انفرادی طور پر کسی ایک امیدوار کے حق میں مہم چلانے کیلئے آزاد ہوں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ پروفیسر کودنڈا رام نے ٹی آرایس کو مشورہ دیا تھا کہ جے اے سی سے وابستہ دو اقلیتی نمائندوں کو بھی ٹی آر ایس کا امیدوار بنائیں لیکن اس تجویز کو قبول نہیں کیا گیا۔