تلنگانہ پردیش کانگریس

گر تم کو بدلنا ہے چال اپنی بدل ڈالو
مہروں کے بدلنے سے بازی نہیں بدلے گی
تلنگانہ پردیش کانگریس
تلنگانہ کانگریس کی رگوں میں خون جم رہا تھا اس کو گرمانے کیلئے پارٹی ہائی کمان نے صدر پردیش کانگریس کی حیثیت سے پونالہ لکشمیا کو ہٹا کر اتم کمار ریڈی کو نیا صدر مقرر کیا ہے۔ آندھراپردیش کی تقسیم کے فوری بعد پونالہ لکشمیا کو صدر پردیش کانگریس تلنگانہ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے یہ اہم ذمہ داری ایک ایسے وقت اپنے ذمہ لی تھی جب ساری ریاست بلکہ ہندوستان بھر میں کانگریس کے زوال کی تابوت میں آخری کیل ٹھونکی جاچکی تھی۔ تلنگانہ کے عوام کو نئی ریاست دینے کا وعدہ پورا کرنے کے بعد کانگریس نے یہ محسوس کیا تھا کہ ریاست میں اس کا سیاسی مستقبل مزید تابناک ہوجائے گا لیکن حالات نے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تو ریاستی قائدین کے سیاسی مسائل اور مستقبل میں توازن بھی ختم ہوگیا۔ اسی وجہ سے پونالہ لکشمیا کے خلاف کئی ہفتوں سے قیاس آرائیاں ہورہی تھیں اور پارٹی کے کئی قائدین نے انہیں ہٹا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ کئی دنوں کی مشاورت کے بعد کانگریس نے حضورنگر کے رکن اسمبلی اتم کمار ریڈی کو پارٹی کے کارگذار صدر کی حیثیت سے ترقی دے کر صدر پردیش کانگریس تلنگانہ بنایا ہے۔ وہ پارٹی کے تباہ شدہ امیج کو کس طرح بہتر بنائیں گے یہ ان کی خوبیوں اور صلاحیتوں پر منحصر ہے۔ فی الحال پردیش کانگریس کو تلنگانہ میں اہم رول ادا کرنا ہے لیکن ضعیف پارٹی کی رگ جاں میں کوئی حرکت ہی نہیں ہے تو اس کے مردہ جسم میں جان ڈالنے کی کوشش کامیاب ہوسکے گی یہ کہنا مشکل ہے۔ جس پارٹی کی نوجوان قیادت ہی پارٹی کی ذمہ داریوں سے دور ہوکر گوشہ نشینی کو وقتی ترجیح دے چکا ہے تو ریاستی سطح پر پارٹی قائدین پر کیا اثر پڑے گا یہ غور طلب امر ہے۔ بی جے پی نے کانگریس سے پاک ہندوستان کا نعرہ دیا تھا اب ایسا معلوم ہوتا ہیکہ یہ پارٹی بی جے پی کے منصوبوں کا شکار ہوتے جارہی ہے۔ کسی زمانے میں کانگریس پارٹی ہائی کمان کو واقعی کمانڈ حاصل تھا جس کے نتیجہ میں پارٹی کا ہر لیڈر اپنے ہائی کمان کی مرضی کے مطابق کام کرتا تھا۔ ان دنوں پارٹی کے زوال نے تمام وفادار قائدین کو بھی بے وفائی کی ترغیب دینا شروع کردیا ہے۔ اس تناظر میں صدر پردیش کانگریس کے عہدے سے پونالہ لکشمیا کی برطرفی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ویسے سیاسی تجزیہ میں کوئی رائے آخری رائے نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی اندازہ حتمی اندازہ ہوتا ہے لیکن کانگریس کے تعلق سے مشاہدہ رکھنے والوں کو یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہوگا کہ پارٹی کی ہائی کمان سے لیکر ریاستی قیادت تک بے اثر ہوچکی ہے۔ پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کے دوران جب کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی غیرحاضر رہتے ہیں تو یہ پارٹی کے اندر پیدا ہونے والی عدم اعتماد یا نااتفاقی کی شروعات ہے۔ تلنگانہ اسمبلی میں کانگریس کے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے کے جاناریڈی کو بھی برطرف کردیا جاتا ہے تو کانگریس کو اس نازک موقف کے ساتھ اپنے احیاء کیلئے سخت جدوجہد کرنی پڑے گی۔ جاناریڈی کی برطرفی کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہیکہ وہ اسمبلی میں مختلف مسائل پر کے سی آر حکومت کو نشانہ بنانے میں ناکام ہورہے ہیں۔ ٹی آر ایس پارٹی کی حکومت اس لئے بھی خوش نصیب ہے کیونکہ گذشتہ 9 ماہ سے اسے کسی مضبوط اپوزیشن کا سامنا نہیں ہے۔ ٹی آر ایس حکومت کی خرابیوں کی نشاندہی کرنے کی بھی کانگریس تلنگانہ قائدین کو فرصت نہ ملے تو پھر یہ یقین سے کہا جاسکتا ہیکہ 7 مارچ سے شروع ہونے والے تلنگانہ اسمبلی بجٹ اجلاس میں بھی اپوزیشن کی حیثیت سے کانگریس اپنے وجود کا احساس دلانے میں ناکام رہے گی۔ پونالہ لکشمیا کی برطرفی ایک غیرمتوقع کارروائی کہی جاسکتی ہے لیکن ان کی کارکردگی سے ناخوش پارٹی ہائی کمان کے پاس اس سے ہٹ کر دوسرا راستہ نہیں تھا۔ اسمبلی انتخابات میں ناکامی کے بعد پونالہ لکشمیا پارٹی کی نظروں میں نااہل ثابت ہونے لگے ان کی جگہ اتم کمار ریڈی کو اس لئے منتخب کیا گیا کیونکہ وہ چار انتخابات سے منتخب ہوتے آرہے ہیں۔ تلنگانہ میں سیاسی غلامی کی بدترین شکل دیکھنی ہو تو کانگریس کے اندر جھانک کر دیکھی جاتی تھی لیکن سیاسی غلامی کے اسیر قائدین کو بھی سزاء ملنے لگی ہے تو یہ قیادت پر احسان کرنے کا ہی نتیجہ سمجھی جائے گی۔ کانگریس اب قیادتوں کی تبدیلی کے ذریعہ اپنا وقت ضائع کرنے لگتی ہے تو زعفرانی پارٹی کو اپنا سیاسی محاذ مضبوط کرنے کا موقع ملے گا۔ سوال یہ ہیکہ آخر کانگریس ہائی کمان نے اچانک اپنی برہمی اور ناراضگی کا رخ خود اپنی جانب کرلینے کے بجائے ریاستی پارٹی قیادت کی جانب کیوں کیا ہر ٹونے والی شئے اپنے پیچھے نشان چھوڑ جاتی ہے اور کانگریس بھی اندر اور باہر سے بڑی طرح ٹوٹ چکی ہے تو اس کے نشان جابجا دکھائی دے رہے ہیں۔ بہرحال تلنگانہ پردیش کانگریس کے نئے صدر کو اپنی بھاری ذمہ داریوں کی انجام دہی کیلئے کڑی آزمائش سے گذرنا پڑے گا۔