تلنگانہ و آندھرا پردیش کے متوقع چیف منسٹر کے سی آر و چندرا بابو کو مبارکباد

حیدرآباد۔ 18 مئی (پریس نوٹ) امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند آندھرا پردیش و اڑیسہ نے علاقہ تلنگانہ و علاقہ سیما۔ آندھرا کے متوقع چیف منسٹر مسرز کے چندرا شیکھر راؤ اور چندرا بابو نائیڈو سربراہان ٹی آر ایس اور ٹی ڈی پی کو اسمبلی و پارلیمانی انتخابات میں ان کے بہترین مظاہرہ پر مبارکباد پیش کی اور اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ علیحدہ علاقہ تلنگانہ کی تحریک میں جناب کے سی آر کا رول ناقابل فراموش ہے۔ یہ انہی کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے کہ علاقہ تلنگانہ کے عوام کو ان کے علیحدہ ریاست کے خواب کی تعبیر مل گئی ورنہ اس سے پہلے کئی قائدین نے تحریک چلائی جن میں سے کسی کی عمر نے وفا نہ کی تو کسی نے تحریک کو بتدریج ختم کرنے کی قیمت مانگی، لیکن یہ کے سی آر ہی ہیں جو مضبوطی سے اپنے مطالبہ پر اٹل رہے اور کسی قیمت پر بھی اپنے مطالبہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ دوسری طرف چندرا بابو نائیڈو جو اس پورے آندھرائی علاقہ کو ایک گھر کی طرح تصور کرتے تھے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ ریاست تقسیم ہو اور عوام بھی ایک دوسرے سے دور ہوں۔

ریاست تو تقسیم ہوگئی اور یہ تقسیم ہر حال میں ناگزیر بھی تھی۔ اب اس تقسیم کو دل کی آمادگی کے ساتھ قبول کرلینے ہی میں دونوں علاقہ کے عوام کیلئے بہتری ہے۔ دونوں متوقع وزراء اعلیٰ کو اب اس بات کی کوشش کرنی ہوگی کہ عوام کے دل فاصلوں کی دوری کی وجہ سے بٹنے نہ پائیں اور نہ ایک دوسرے کے خلاف منفی جذبات اُبھرنے پائیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کا غمگسار ہو، کسی کو تکلیف ہو تو دوسرا بھی اس تکلیف کو محسوس کرے۔ دونوں علاقوں کے عوام بھائیوں کی طرح رہتے آئے تھے تو اب تقسیم کے بعد بھی یہ بھائیوں ہی کی طرح رہیں۔ دونوں وزراء اعلیٰ اس بات کی توقع کی کہ وہ بہتر حکمرانی فراہم کریں گے، عوام سے اور بالخصوص اقلیتوں سے کئے گئے وعدوں کا پاس و لحاظ رکھیں گے اور اقلیتوں سے اس طرح کا اجنبی سلوک نہ کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افرادِ ملت کی خدمت کے لئے اللہ نے ایک اور موقع مجلس کو فراہم کیا ہے، جس کی قدر اور شکر گزاری کی جانی چاہئے۔ انہوں نے مرکز میں قائم ہونے والی نئی سرکار کو بھی مبارکباد دی اور ان کے لئے بھی اپنے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور توقع ظاہر کی کہ وہ بہتر حکمرانی فراہم کریں گے۔ امیر حلقہ نے آر ایس ایس کے اس بیان کا بھی خیرمقدم کیا

جس میں آر ایس ایس نے بی جے پی کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ نظریاتی، مذہبی اور سماجی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک میں ایسا ماحول پیدا کرے جو ملک کو متحد رکھ سکے۔ آپ نے مرکز میں قائم ہونے والی نئی حکومت سے اپیل کی کہ وہ ایسی حکمرانی فراہم کرے جس میں کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ ہو، ہر کسی کا جو حق ہے، وہ اسے پورے انصاف کے ساتھ ملے، عدم تحفظ کا احساس ختم ہو اور اس کی جگہ تحفظ کی کیفیت پیدا ہو، اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک نہ ہو اور نہ انہیں کمتر درجہ کا شہری تصور کیا جائے۔