تلنگانہ وقف بورڈ کے متفقہ انتخاب کی راہ ہموار

متولی اور منیجنگ کمیٹی کے دو امیدوار دستبردار، الحاج محمد سلیم چیرمین منتخب ہونا یقینی
حیدرآباد۔/31ڈسمبر، ( سیاست نیوز) تلنگانہ وقف بورڈ کے متفقہ انتخاب کی راہ آج اسوقت ہموار ہوگئی جب متولی اور منیجنگ کمیٹی زمرہ کے2 امیدواروں نے اپنے پرچہ جات نامزدگی واپس لے لئے۔ اس طرح اس زمرہ میں رائے دہی کے بغیر ہی دونوں ارکان کا متفقہ طور پر انتخاب ہوچکا ہے۔ 4 زمرہ جات کے تحت انتخابی شیڈول کے مطابق پرچہ جات نامزدگیاں داخل کئے گئے تھے۔ تین زمروں میں اتفاق رائے سے ارکان کا انتخاب ہوچکا ہے کیونکہ تعداد کے مطابق ہی پرچہ جات داخل ہوئے جبکہ متولی اور منیجنگ کمیٹی زمرہ میں 2 نشستوں کیلئے5 نامزدگیاں داخل کی گئی تھیں جس سے رائے دہی کے امکانات پیدا ہوگئے تھے۔ پرچہ جات کی جانچ میں ایک نامزدگی کو مسترد کردیا گیا جبکہ آج پرچہ جات واپس لینے کی آخری تاریخ کو 2 امیدواروں نے مقابلہ سے دستبرداری اختیار کرلی۔ مسجد بی صاحبہ پنجہ گٹہ کے شرف الدین کے پرچہ نامزدگی کو مسترد کردیا گیا۔ آج دو امیدواروں نے پرچہ نامزدگی واپس لے لیا جن میں وصی اللہ قادری اور محمود اسد اللہ صدیقی شامل ہیں۔ اس طرح اس زمرہ میں مولانا سید اکبر نظام الدین حسینی قادری اور حکومت کے تائیدی امیدوار انور بیگ ( مسجد صحیفہ چادر گھاٹ ) کا بلا مقابلہ انتخاب یقینی ہوچکا ہے۔ مسلم رکن پارلیمنٹ کے زمرہ میں حیدرآباد کے ایم پی اسد اویسی، ارکان مقننہ زمرہ میں ٹی آر ایس کے ایم ایل سی محمد سلیم اور مجلس کے ایم ایل اے معظم خاں کا انتخاب یقینی ہے۔ بار کونسل زمرہ میں زیڈ اے جاوید دوبارہ بورڈ کے ممبر بن سکتے ہیں۔ وقف بورڈ کے ذرائع نے بتایا کہ الیکشن آفیسر 6 ارکان کے بلا مقابلہ انتخاب کے سلسلہ میں حکومت کو رپورٹ پیش کریں گے جس کے بعد حکومت 4 ارکان کو نامزد کرے گی۔ الیکشن آفیسر کی رپورٹ کے بعد نامزد ارکان کے تقرر کا اعلان کیا جائے گا جس کے بعد 10 رکنی وقف بورڈ کی تشکیل کا اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔ توقع ہے کہ وقف بورڈ کی مکمل تشکیل کا عمل آئندہ ہفتہ مکمل ہوجائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ ٹی آر ایس کے ایم ایل سی محمد سلیم بورڈ کے صدرنشین ہوں گے اور اس پر حکومت اور اس کی حلیف جماعت میں اتفاق رائے ہوچکا ہے۔ سابق کے بعض ارکان کی شمولیت کے امکانات موہوم ہیں کیونکہ ان کی بعض سرگرمیوں کے سلسلہ میں حکومت کو شکایا ت موصول ہوئی تھیں۔انتخابی نامزد زمرہ میں شمولیت کیلئے کئی قائدین حکومت کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ شیعہ اور سنی طبقات کے ایک، ایک عالم دین کے علاوہ ایک خاتون رکن اور ایک عہدیدار کو حکومت نامزد کرے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ جس طرح انتخابی زمروں میں بلامقابلہ انتخاب کیلئے حکومت اور اس کی حلیف جماعت میں اتفاق رائے پیدا ہوا اسی طرح نامزد ارکان کے سلسلہ میں بھی مشاورت کی جائے گی۔