تلنگانہ وقف بورڈ کی 10 یا 11 جنوری کو تشکیل ، الحاج محمد سلیم صدر نشین ہوں گے

بورڈ کو تنازعات سے پاک اور آمدنی کا سبب بنانے حکومت کا عزم ، ڈپٹی چیف منسٹر کا میڈیا سے خطاب
حیدرآباد ۔2۔جنوری (سیاست نیوز) ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمد محمود علی نے کہا کہ 10 یا 11 جنوری کو تلنگانہ وقف بورڈ تشکیل پاجائے گا اور جناب محمد سلیم بورڈ کے صدرنشین ہوں گے ۔ حج ہاؤز میں منعقدہ تقریب اور پھر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ڈپٹی چیف منسٹر نے کہا کہ وقف بورڈ کی بہتر کارکردگی کیلئے ایماندار اور دیانتدار شخصیت ضروری ہے اور چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اس عہدہ کیلئے جناب محمد سلیم کا انتخاب کیا ہے ، جو سابق میں بھی صدرنشین وقف بورڈ کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ کی کارکر دگی کے بارے میں سابق میں کئی تنازعات منظر عام پر آئے اور حکومت موجودہ بورڈ کو تنازعات سے پاک اور آمدنی میں اضافہ کا سبب بنانا چاہتی ہے۔ انہوں نے جناب محمد سلیم کی ستائش کی اور کہا کہ وقف بورڈ میں ایسے ہی ایماندار افراد کی ضرورت ہے تاکہ بورڈ کو مستحکم کیا جاسکے۔ انہوں نے بتایا کہ وقف بورڈ کی آمدنی میں 7 کروڑ سے بڑھاکر 70 کروڑ کرنے کا نشانہ مقرر کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 34,000 سے زائد اوقافی جائیدادوں کے تحت 77 ہزار ایکر اراضی موجود ہے ، اگر اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو اقلیتوں کی ترقی اور مساجد کی تعمیر و مرمت کیلئے مناسب امداد جاری کی جاسکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت وقف بورڈ کی آمدنی کو 1000 کروڑ تک پہنچانے کی کوشش کرے گی۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے حیرت کا اظہار کیا کہ کئی ہزار کروڑ مالیتی اداروں سے وابستہ وقف بورڈ اپنے ملازمین کی تنخواہوں کے لئے حکومت کے بجٹ پر انحصار کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بورڈ میں سابق میں بعض دھاندلیاں ہوئی ہیں لیکن موجودہ بورڈ کو نقائص سے پاک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بورڈ میں جن افراد نے بھی دھاندلیوں کا ارتکاب کیا ، انہیں کئی ایک مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔ اوقافی اداروں کے کرایہ انتہائی معمولی ہے اور اس میں اضافہ کیلئے عوام کو تعاون کرنا چاہئے۔ حکومت اپنی حلیف مقامی جماعت کی مدد سے شہر میں اوقافی جائیدادوں کے کرایوں میں اضافہ کی کوشش کرے گی ۔ انہوں نے بورڈ میں قابل عملہ کی کمی کا اعتراف کیا اور کہا کہ حکومت قابل ملازمین کا تقرر کرکے انہیں ٹریننگ دی جائے گی تاکہ اوقافی جائیدادوں کا موثر انداز میں تحفظ ہوسکے۔ جناب محمود علی نے وقف بورڈ کے بدعنوان اور کرپٹ ملازمین کو  انتباہ دیا کہ اگر وہ اپنی سرگرمیوں سے باز نہیں آئیں گے تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ بددیانت اور کرپٹ ملازمین فائل کے اعلیٰ عہدیدار تک پہنچنے سے قبل ہی اس کی کاپی متعلقہ فریق کے حوالے کردیتے ہیں۔ اس طرح کی دھاندلیوں پر قابو پانا ضروری ہے ۔ حکومت ایسے افراد کو معطل کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ بورڈ میں غیر تعلیم یافتہ ملازمین کارکردگی کی بہتری میں اہم رکاوٹ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کے پاس انٹلیجنس اور دیگر اداروںکی تحقیقاتی رپورٹ موجود ہیں جن میں بد عنوان ملازمین کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے اعتراف کیا کہ حکومت نے وقف بورڈ میں سدھار کیلئے کافی کوشش کی لیکن یہ ممکن نہیں ہوسکا اور بورڈ کی سرگرمیاں کنٹرول میں نہیں آسکی ۔ جبکہ اعلیٰ عہدیداروں نے کارکردگی بہتر بنانے کیلئے کافی مساعی کی ہے۔ انہوں نے جناب محمد سلیم کی زیر صدارت بورڈ کی بہتر کارکردگی کی امید ظاہر کی ۔ جناب محمود علی نے کہا کہ غیر مجاز قابضین کو وقف بورڈ کا کرایہ دار بننا چاہئے تاکہ بورڈ کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ایسی وقف جائیدادیں جن پر کوئی تنازعہ نہیں ہے، انہیں ریونیو ریکارڈ میں شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اقامتی اسکولس کے لئے 50 مقامات پر اراضی کی نشاندہی مکمل ہوچکی ہے ، باقی اسکولوں کے سلسلہ میں ضلع کلکٹرس کو ہدایت دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ حکومت نے اسکول عمارتوں کی تعمیر کیلئے 6200 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں۔ اقلیتی بہبود کے بجٹ کو مکمل خرچ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے کہا کہ سیول سرویسز میں مسلم نمائندگی میں اضافہ کیلئے حکومت اپنے خرچ پر نوجوانوں کو سیول سرویسز کی کوچنگ فراہم کر رہی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں ڈپٹی چیف منسٹر نے کہا کہ فیس ری ایمبرسمنٹ کے سلسلہ میں کالجس کو سرکولر روانہ کیا گیا ہے کہ وہ طلبہ کو ہراساں نہ کریں۔ حکومت فیس کی ساری رقم ادا کرے گی ۔ جاریہ سال اس اسکیم سے 28,000 اقلیتی طلبہ کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ آندھراپردیش کی حکومت سے 1881 کروڑ روپئے کے بقایہ جات تلنگانہ حکومت کے حصہ میں آئے تھے جنہیں مرحلہ وار طور پر ادا کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ تین ماہ میں ہر ضلع ہیڈ کوارٹر پر اقلیتی بہبود کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ دو تا تین کروڑ روپیوں کے خرچ سے یہ عمارت تعمیر ہوگی جس میں اقلیتی بہبود کے تمام دفاتر موجود رہیں گے۔ اوقافی اراضیات پر یہ عمارت تعمیر کی جائے گی جو اقلیتی طلبہ کے ٹریننگ پروگراموں کا مرکز بھی رہے گا۔