تلنگانہ وقف بورڈ کی تشکیل کیلئے کسی بھی وقت اعلامیہ کی اجرائی

چیف منسٹر کے سی آر کی منظوری کا انتظار ، عہدیداران متحرک ، سرکاری سرگرمیاں عروج پر
حیدرآباد۔2 ڈسمبر (سیاست نیوز) تلنگانہ وقف بورڈ کی تشکیل کے لئے اعلامیہ کسی بھی وقت جاری کیا جاسکتا ہے۔ محکمہ اقلیتی بہبود کو اعلامیہ کی اجرائی کے سلسلہ میں چیف منسٹر کی منظوری کا انتظار ہے جس میں انہیں اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ بورڈ میں ارکان کی تعداد کتنی ہوگی اور کون الیکشن آفیسر ہوںگے۔ محکمہ اقلیتی بہود کو چیف منسٹر نے انتخابات کے انعقاد کے لئے پہلے ہی ہری جھنڈی دکھادی ہے تاہم محکمہ کی جانب سے تازہ تجاویز کے ساتھ فائل کل چیف منسٹر کے دفتر روانہ کی گئی۔ وقف بورڈ کی تشکیل کے سلسلہ میں ایک طرف عہدیدار متحرک ہیں تو دوسری طرف حکومت کی سطح پر بھی سرگرمیاں جاری ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ برسر اقتدار پارٹی اور اس کی دوست مقامی جماعت آپسی مفاہمت سے بورڈ تشکیل دیں گے۔ توقع ہے کہ صدرنشین کا تعلق برسر اقتدار پارٹی سے ہوگا جبکہ ارکان میں مقامی جماعت کے سفارش کردہ افراد کی اکثریت ہوگی۔ اطلاعات کے مطابق صدرنشین کے عہدے کے لئے چیف منسٹر پارٹی کے واحد مسلم رکن اسمبلی کے نام پر غور کررہے ہیں۔ اسی دوران ہائی کورٹ کی جانب سے وقف بورڈ کی تشکیل کے سلسلہ میں دی گئی تین ماہ کی مہلت 11 ڈسمبر کو ختم ہورہی ہے اور حکومت اس مہلت سے قبل اعلامیہ جاری کرتے ہوئے عدالت سے بورڈ کی تشکیل کے لئے ایک ماہ کی مہلت میں توسیع حاصل کرے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ سکریٹری اقلیتی بہبود نے چیف منسٹر کو جو فائل روانہ کی ہے اس میں متولی اور منیجنگ کمیٹیوں کی عبوری فہرست بھی روانہ کی ہے۔ متولی کے انتخاب کے لئے یہ بحیثیت رائے دہندہ شامل کیئے جاسکتے ہیں۔ ایسے ادارے جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپئے سے زائد ہو وہ متولی زمرے میں مقابلہ کرنے اور رائے دہی کا حق رکھتے ہیں۔ ابتدائی اندازے کے مطابق 304 رائے دہندوں کی نشاندہی کی گئی تاہم یہ فہرست بعد میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ چار زمرے ایسے ہیں جن میں رائے دہی کے ذریعہ ارکان کا انتخاب کیا جائے گا۔ مسلم رکن پارلیمنٹ، مسلم رکن مقننہ، بار کونسل رکن اور متولی و منیجنگ کمیٹی کے زمروں میں ایک یا ایک سے زائد ارکان کے انتخاب کا اختیار چیف منسٹر پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ مقننہ کے زمرے میں کونسل اور اسمبلی کے ارکان شامل رہیں گے۔ دیگر چار زمرے ایسے ہیں جن میں حکومت ارکان کو نامزد کرسکتی ہے۔ شیعہ اور سنی اسکالر کے علاوہ اوقافی امور پر عبور رکھنے والی شخصیت اور ایک خاتون کو بورڈ میں نامزد کیا جاسکتا ہے۔ بورڈ کے مجموعی ارکان کی تعداد 9 یا 11 ہوگی۔ اس سلسلہ میں چیف منسٹر کی رائے حاصل کی گئی ہے۔ چیف منسٹر سے الیکشن آفیسر کے تقرر کے بارے میں بھی رائے حاصل کی گئی ہے۔ محکمہ اقلیتی بہبود نے الیکشن آفیسر کے طور پر کلکٹر حیدرآباد یا جوائنٹ کلکٹر حیدرآباد کے ناموں کی سفارش کی ہے۔ چیف منسٹر سے منظوری کے فوری بعد اعلامیہ جاری کردیا جائے گا اور الیکشن آفیسر اپنی کارکردگی کا آغاز کریں گے۔ الیکشن کے مرحلہ کی تکمیل کے لئے کم سے کم ایک ماہ درکار ہوگا لہٰذا ہائی کورٹ سے مہلت میں توسیع کی درخواست کی جائے گی۔ الیکشن آفیسر فہرست رائے دہندگان کو شائع کریں گے اور اس میں شامل افراد کے بارے میں اعتراضات قبول کئے جائیں گے۔ اعتراضات کی سماعت کے بعد قطعی فہرست تیار کی جائے گی جس کی بنیاد پر انتخابات ہوں گے۔ پہلی مرتبہ مساجد کی کمیٹیوں کو بھی رائے دہی کا حق حاصل ہوگا۔ وقف ایکٹ میں کی گئی حالیہ ترمیمات کے تحت مساجد کمیٹیوں کو بھی اس زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ ایسی مساجد جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ سے زائد ہو وہ انتخابات میں رائے دہی کا حق رکھتے ہیں۔ اسی دوران چیف منسٹر کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ حلیف جماعت سے مشاورت کے ذریعہ صدرنشین اور بیشتر ارکان کے ناموں کو پہلے ہی قطعیت دی جاچکی ہے اور باہمی اتفاق رائے سے بورڈ تشکیل دیا جائیگا۔