تلنگانہ وقف بورڈ کی تشکیل پر حکومت کا ہنوز عدم فیصلہ

سید عمر جلیل اور محمد اسد اللہ پر وقف مافیا کا دباؤ ، عہدیداران الجھن کا شکار
حیدرآباد ۔ 3۔اکتوبر (سیاست نیوز) حکومت نے تلنگانہ وقف بورڈ کی تشکیل کے سلسلہ میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ، حالانکہ ہائی کورٹ میں اندرون تین ماہ بورڈ کی تشکیل کی ہدایت دی ہے۔ سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل نے بورڈ کی تشکیل کے سلسلہ میں انتخابی عمل شروع کرنے کیلئے حکومت سے اجازت طلب کی ہے لیکن یہ فائل چیف منسٹر کے دفتر سے واپس نہیں آئی۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت ہائی کورٹ کے فیصلہ پر مختلف متبادل امکانات کا جائزہ لے رہی ہے۔ گزشتہ دنوں وقف بورڈ کے ارکان اور ان کے انتخاب کے طریقہ کار کی تفصیلات حکومت کی جانب سے حاصل کی گئیں۔ بورڈ کی تشکیل کے سلسلہ میں حکومت پر مقامی سیاسی جماعت کا دباؤ دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے ۔ ایسے میں وقف بورڈ کے عہدیدار مجاز اور چیف اگزیکیٹیو آفیسر اپنی میعاد کی تکمیل کے بعد دوبارہ ان عہدوں پر برقراری کے حق میں نہیں ہے۔ عہدیدار مجاز کی حیثیت سے سید عمر جلیل کی میعاد 18 ا کتوبر کو ختم ہوجائے گی جبکہ چیف اگزیکیٹیو آفیسر کی حیثیت سے محمد اسد اللہ کی ایک سالہ میعاد 24 اکتوبر کو ختم ہوگی۔ دونوں عہدیداروں نے حکومت سے خواہش کی ہے کہ انہیں دوبارہ توسیع نہ دی جائے اور ان کی جگہ کسی اور عہدیدار کا تقرر کیا جائے ۔ سکریٹری اقلیتی بہبود نے چیف منسٹر کے دفتر کو مکتوب روانہ کیا جبکہ محمد اسد اللہ نے سکریٹری اقلیتی بہبود سے خواہش کی کہ انہیں ان کے متعلقہ محکمہ مال واپس کردیا جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ وقف بورڈ کے روز مرہ امور میں بڑھتی سیاسی مداخلت کے سبب چیف اگزیکیٹیو آفیسر کی حیثیت سے محمد اسد اللہ برقراری کے حق میں نہیں ہے ۔ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور ناجائز قابضین کے خلاف کارروائی کے سلسلہ میں انہیں بیرونی عناصر کے دباؤ کا سامنا ہے ، اس کے علاوہ اندرونی عناصر جو وقف مافیا سے ملی بھگت رکھتے ہیں، وہ ہر کام میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ وقف بورڈ کی اہم فائلوں کو چیف اگزیکیٹیو آفیسر سے دور رکھنے کیلئے وقف مافیا سرگرم ہے۔ ماتحت عہدیداروں کے عدم تعاون کے رویہ نے چیف اگزیکیٹیو آفیسر کو الجھن میں مبتلا کردیا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت نے اندرون تین ماہ بورڈ کی تشکیل سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلہ پر قانونی رائے حاصل کی ہے۔ ضرورت پڑنے پر سنگل جج کے فیصلہ کو ڈیویژن بنچ پر چیلنج کیا جاسکتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت وقف بورڈ کی تشکیل کی صورت میں مقامی سیاسی جماعت کے غلبہ کے امکانات کو دیکھتے ہوئے فوری طور پر بورڈ کی تشکیل کے حق میں نہیں ہے۔ تشکیل کی صورت میں بعض ایسے افراد دوبارہ بورڈ میں جگہ حاصل کرلیں گے جن کے خلاف وقف بورڈ کے مقدمات زیر دوراں ہیں۔ اوقافی جائیدادوں تباہی کے ذمہ دار اگر بورڈ میں منتخب ہوجائیں تو پھر مزید تباہی یقینی ہے ۔ ان حالات میں حکومت بورڈ کی تشکیل کو لیکر نہ صرف الجھن کا شکار ہے بلکہ اس کے پاس عہدیدار مجاز اور چیف اگزیکیٹیو آفیسر کے عہدوں کیلئے کوئی موزوں اور اہل عہدیدار بھی موجود نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت آیا مقامی سیاسی جماعت کے دباؤ کو کس حد تک قبول کرے گی۔