مجلس نے ڈپٹی چیف منسٹر کے ناشتہ کا بائیکاٹ کیا ، صدر نشین کے انتخاب میں دوری
حیدرآباد۔24 فبروری (سیاست نیوز) تلنگانہ وقف بورڈ کی تشکیل کے ساتھ ہی ٹی آر ایس اور اس کی حلیف جماعت مجلس کے درمیان اختلافات منظر عام پر آچکے ہیں۔ بورڈ میں نامزد ارکان کے زمرے میں سفارش کردہ ناموں کی عدم شمولیت سے ناراض مجلس کے تائیدی ارکان نے ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی کے ناشتے کا بائیکاٹ کیا۔ وہ بورڈ کے پہلے اجلاس کا بھی بائیکاٹ کرنے والے تھے تاہم لمحہ آخر میں حکومت کے سرکردہ افراد کی مداخلت پر مجلس کے تائیدی امیدواروں نے صدرنشین کے انتخاب کے لیے منعقدہ اجلاس میں شرکت کی۔ تاہم انہوں نے خود کو صدرنشین کے انتخاب سے دور رکھا۔ بورڈ کے 11 ارکان کے منجملہ 9 نے اجلاس میں شرکت کی جس میں مجلس کے تائیدی چار ارکان شریک ہوئے۔ صدرنشین کے انتخاب کے لیے حکومت کے تائیدی رکن مرزا انور بیگ نے ٹی آر ایس رکن قانون ساز کونسل محمد سلیم کا نام پیش کیا جس کی تائید حکومت کے تائیدی نامزد رکن اور جماعت اسلامی کے قائد ملک معتصم خان نے کی۔ اس طرح اتفاق رائے سے صدرنشین کے انتخاب کا اعلان کردیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بورڈ کی تشکیل کے سلسلہ میں ٹی آر ایس اور اس کی حلیف جماعت میں جو معاہدہ طے پایا تھا اس کے مطابق منتخب ہونے والے چار زمرے جات کے دو ارکان کے لیے ٹی آر ایس امیدواروں کی کامیابی کی راہ ہموار کی جائے گی جس کے جواب میں نامزد ارکان میں حلیف جماعت کے دو ارکان کو شامل کیا جائے گا۔ کل رات حکومت نے بورڈ کی تشکیل کے لیے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے نامزد ارکان کے زمرے میں پانچ ناموں کا اعلان کیا ہے ان میں مقامی جماعت کی سفارش کردہ صرف ایک رکن مولانا سید نثار حسین حیدر آغا کو شامل کیا گیا۔ جبکہ سنی اسکالر کے زمرے میں مقامی جماعت نے مولانا ظہیر الدین صوفی کا نام پیش کیا تھا، ان کی جگہ حکومت نے ٹی آر ایس پارٹی سے تعلق رکھنے والے وحید احمد ایڈوکیٹ کو نامزد کردیا۔ اعلامیہ کی اجرائی کے ساتھ ہی مقامی جماعت نے اپنی ناراضگی کااظہار کیا اور ڈپٹی چیف منسٹر کو اپنے جذبات سے واقف کروایا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق حلیف جماعت کو پارٹی کے قائد کی سنی اسکالر کی حیثیت سے شمولیت پر اعتراض ہے جس پر اظہار ناراضگی کے لیے ڈپٹی چیف منسٹر کی جانب سے تمام ارکان کے لیے اہتمام کردہ ناشتے کی ضیافت کا بائیکاٹ کیا۔ مقامی جماعت کے ارکان نے بعد نماز جمعہ صدرنشین کے انتخاب کے لیے اجلاس کا بھی بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس صورتحال سے الجھن کا شکار حکومت نے مصالحتی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور کسی طرح مقامی جماعت کو اجلاس میں شرکت کے لیے راضی کرلیا گیا۔ اس کے ارکان مقررہ وقت سے تاخیر سے اجلاس میں پہنچے اور انتخابی عمل میں شامل نہیں ہوئے۔ اگر صورتحال بہتر ہوتی تو مقامی جماعت کی جانب سے صدرنشین کے نام کی تجویز پیش کی جاتی اور نامزد ارکان میں سے کوئی تائید کرتے۔ صدرنشین کے انتخاب کے بعد مولانا اکبر نظام الدین حسینی صابری نے اس بات کا اعتراف کیا کہ حکومت نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حلیف جماعت کے ساتھ عملاً دھوکہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منتخب ارکان میں مجلس کی تائید سے دو کے انتخاب کے بعد جب نامزد ارکان کا مرحلہ آیا تو حکومت نے صرف ایک رکن کو شامل کیا جبکہ دو ارکان کا معاہدہ کیا گیا تھا۔ حکومت نے حلیف جماعت کو تاریکی میں رکھتے ہوئے یہ احکامات جاری کردیئے۔ صدرنشین کے انتخاب کے باوجود مقامی جماعت کے ارکان مطمئن نظر نہیں آئے اور وہ صدرنشین کے انتخاب کے فوری بعد وقف بورڈ سے روانہ ہوگئے۔ بتایا جاتا ہے کہ وقف بورڈ پر حکومت کا غلبہ برقرار رکھنے کے لیے چیف منسٹر کی ہدایت پر مقامی جماعت کے سفارش کردہ دو کے منجملہ صرف ایک نام کو شامل کیا گیا۔ بورڈ کی تشکیل کے سلسلہ میں دونوں جماعتوں میں یہ کشیدگی کا اثر بورڈ کی کارکردگی پر پڑسکتا ہے۔ موجودہ بورڈ میں 11 ارکان کے منجملہ 6 کا تعلق حکومت کے تائیدی ارکان سے ہے جبکہ مقامی جماعت کے تائیدی پانچ ارکان کو بورڈ میں جگہ ملی ہے۔ الیکشن زمرے کے چھ ارکان میں چار کا تعلق مقامی جماعت سے ہے۔ جبکہ 5 نامزد کردہ ارکان میں چار برسر اقتدار پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔