بعض خواتین بھی حکومت سے رجوع ، محکمہ اقلیتی بہبود اور محکمہ قانون میں تضاد
حیدرآباد۔/3جنوری، ( سیاست نیوز) تلنگانہ وقف بورڈ میں 6 امیدواروں کے بلامقابلہ انتخاب کے بعد نامزد ارکان کی حیثیت سے شمولیت کیلئے مختلف گوشوں سے پیروی کا آغاز ہوچکا ہے۔ وقف بورڈ میں بحیثیت رکن شامل ہونے کیلئے اس مرتبہ بعض خواتین بھی حکومت سے رجوع ہوئی ہیں کیونکہ وقف ایکٹ کے تحت بورڈ میں 2 خواتین کی شمولیت کی گنجائش موجود ہے۔ اس مسئلہ پر محکمہ اقلیتی بہبود اور محکمہ قانون کے درمیان رائے میں تضاد پایا جاتا ہے۔ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کا ماننا ہے کہ وقف ایکٹ میں 2 خواتین کی شمولیت کی گنجائش کو لازمی قرار نہیں دیا گیا بلکہ یہ اختیاری ہے جبکہ وقف ایکٹ کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ایکٹ کے مطابق 2 خواتین کی شمولیت لازمی ہے اور دیگر ریاستوں میں خواتین کو نمائندگی دی گئی۔ اگر بورڈ میں اس قانون کے مطابق نمائندگی نہیں دی گئی تو قانونی دشواریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں نے حکومت کو بتایا ہے کہ دو خاتون ارکان کی شمولیت اختیاری عمل ہے لہذا حکومت کو اس کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیئے۔ 4 نامزد ارکان میں 2 مذہبی اسکالرس اور ایک سماجی کارکن کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ ایک عہدیدار کو بحیثیت رکن نامزد کیا جائے گا۔ 3 عہدوں کیلئے کئی افراد حکومت سے رجوع ہوچکے ہیں۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی اور دیگر وزراء سے رجوع ہوکر اپنے بائیوڈاٹا حوالے کئے۔ بتایا جاتا ہے کہ نامزد عہدوں پر تقررات کے سلسلہ میں چیف منسٹر بہت جلد اپنی حلیف جماعت سے مشاورت کریں گے جس کے بعد ناموں کو قطعیت دی جائے گی۔ 3 ارکان میں سے حکومت کم از کم 2 نشستوں پر اپنے تائیدی افراد کو مقرر کرنا چاہتی ہے تاکہ وقف بورڈ پر حکومت کا کنٹرول برقرار رہے۔ دوسری طرف حلیف مقامی جماعت کی جانب سے حکومت کو بعض ناموں کی سفارش کی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق سابق میں وقف بورڈ سے وابستہ بعض افراد دوبارہ شمولیت کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ برسر اقتدار پارٹی سے وابستہ بعض مذہبی شخصیتیں بھی اس عہدہ کیلئے دوڑ میں ہیں کیونکہ انہیں اندیشہ ہے کہ اگر یہ عہدہ بھی حاصل نہیں کیا گیا تو پھر دیگر نامزد عہدوں کے حصول کیلئے مزید انتظار کرنا پڑسکتا ہے۔