کانگریس بھی حکومت تشکیل دینے کی دعویدار ، تجزیہ نگار پیش قیاسیوں میں مصروف
حیدرآباد۔یکم مئی، (سیاست نیوز) تلنگانہ میں رائے دہی کے اختتام کے ساتھ ہی ٹی آر ایس اور کانگریس پارٹی نئی ریاست میں اپنی اپنی حکومت کی تشکیل کا دعویٰ کررہی ہیں۔ ٹی آر ایس نے 119کے منجملہ90نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کیا ہے جبکہ کانگریس کو 60سے زائد نشستوں کے حصول کی امید ہے۔ تشکیل حکومت کیلئے 60 ارکان کی تائید ضروری ہے۔ دونوں اہم پارٹیوں کے دعوے اپنی جگہ لیکن انٹلیجنس نے ٹی آر ایس کے حق میں پیش قیاسی کی ہے۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ رائے دہی کے اختتام کے بعد انٹلیجنس حکام نے جو رپورٹ تیار کی اس کے مطابق ٹی آر ایس کو 60تا70نشستوں پر کامیابی حاصل ہوگی اور وہ کسی پارٹی کی تائید کے بغیر تشکیل حکومت کے موقف میں ہوگی۔ انٹلیجنس نے کانگریس پارٹی کو 30تا40نشستوں پر کامیابی کی پیش قیاسی کی ہے۔ تلگودیشم۔ بی جے پی اتحاد کسی قدر نشستیں حاصل کرے گا جبکہ وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے حق میں انٹلیجنس نے منفی رپورٹ دی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ تلنگانہ کے 9اضلاع میں زبردست رائے دہی کا فائدہ ٹی آر ایس کو ہوسکتا ہے۔ دیہی علاقوں میں رائے دہندوں کا رجحان ٹی آر ایس کے حق میں دیکھا گیا جبکہ شہری اور نیم شہری علاقوں میں کانگریس اور دیگر جماعتوں نے اپنا اثر دکھایا۔ انتخابی تجزیہ کرنے والے ٹی آر ایس کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اضلاع میدک، کریم نگر، ورنگل، محبوب نگر اور عادل آباد میں پارٹی کا شاندار مظاہرہ رہے گا جبکہ نظام آبادمیں ٹی آر ایس کے اوسط مظاہرہ کی توقع کی گئی ہے۔ اضلاع نلگنڈہ، کھمم، حیدرآباد اور رنگاریڈی میں پارٹی کا کوئی خاص مظاہرہ نہیں رہے گا۔ اس اعتبار سے انٹلیجنس کی رپورٹ زیادہ حقائق کے قریب دکھائی دے رہی ہے۔ ٹی آر ایس کی جانب سے 90نشستوںکے حصول کا دعویٰ اس اعتبار سے کمزور ہے کیونکہ چار اضلاع میں پارٹی کا کوئی خاص مظاہرہ ممکن نہیں۔ دوسری طرف کانگریس پارٹی بھی تشکیل حکومت کا دعویٰ کررہی ہے۔ پارٹی نے رائے دہی کے اعداد و شمار کے لحاظ سے جو اندازے قائم کئے ہیں اس کے مطابق اسے 50تا60نشستوں پر کامیابی حاصل ہوگی اور وہ تلنگانہ میں واحد بڑی پارٹی کے موقف میں ہوسکتی ہے۔ کانگریس پارٹی کو اندیشہ ہے کہ رائے دہی کے زائد فیصد سے کانگریس کو نقصان ہوگا۔ انتخابی مہم کے دوران چندر شیکھر راؤ نے طوفانی دورے کرتے ہوئے 90اسمبلی حلقوں کا احاطہ کیا جبکہ کانگریس پارٹی کے تلنگانہ قائدین مشترکہ انتخابی مہم چلانے میں ناکام رہے۔ ہائی کمان نے سابق ڈپٹی چیف منسٹر دامودر راج نرسمہا کی قیادت میں انتخابی مہم کمیٹی تشکیل دی تھی لیکن یہ کمیٹی صرف کاغذ پر ہی برقرار رہی۔ کمیٹی میں شامل قائدین نے تلنگانہ میں مشترکہ انتخابی مہم نہیں چلائی اور ٹی آر ایس کے خطرہ کے باعث اہم قائدین اپنے اپنے حلقوں تک محدود ہوگئے۔ کانگریس کی جانب سے تلنگانہ قائدین کی بس یاترا کا منصوبہ بنایا گیا تھا جسے لمحہ آخر میں ترک کردیاگیا۔ کانگریس کی انتخابی مہم قومی قائدین سونیا گاندھی، راہول گاندھی، غلام نبی آزاد، جئے رام رمیش، وائیلارروی اور ڈگ وجئے سنگھ نے چلائی۔ بتایا جاتا ہے کہ تلنگانہ کانگریس قائدین کو انتخابی مہم کے دوران پارٹی میں داخلی سبوتاج کا بھی خطرہ درپیش تھا۔ تلگودیشم۔ بی جے پی اتحاد بھی تلنگانہ میں بہتر مظاہرہ کی امید کررہا ہے۔ شہری علاقوں سے دونوں پارٹیوں کو کچھ زیادہ ہی امید ہے اور ان کی نظریں حیدرآباد اور رنگاریڈی کے 29حلقوں پر مرکوز ہیں، اس کے علاوہ سکندرآباد اور چیوڑلہ لوک سبھا حلقوں میں بھی اس اتحاد نے کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔ ریاست کی تقسیم کی مخالفت کرنے والی وائی ایس آر کانگریس پارٹی کا تلنگانہ میں اگرچہ کوئی مضبوط کیڈر نہیں ہے لیکن شرمیلا اور جگن کی کامیاب انتخابی مہم کے باعث پارٹی بعض حلقوں میں کامیابی کے بارے میں پُرامید ہے۔ رائے دہی کے اختتام کے ساتھ ہی بڑی سیاسی جماعتوں میں موجود ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگار تلنگانہ کی نئی حکومت کے بارے میں پیش قیاسیوں میں مصروف ہوچکے ہیں۔