تلنگانہ میں ٹی آر ایس کسی کی تائید کے بغیر حکومت بنائیگی

مرکز میں صرف یو پی اے یا این ڈی اے کے مابین انتخاب محدود نہیں : ٹی آر ایس لیڈر کے ٹی آر کا انٹرویو

حیدرآباد 2 مئی ( پی ٹی آئی ) ان قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہ تلنگانہ میں ہوئے انتخابات میں عوام کی رائے منقسم رہے گی ٹی آر ایس نے آج یہ واضح کیا کہ وہ فیصلہ کن اکثریت کے ساتھ کسی کی بھی تائید کے بغیر یہاں حکومت تشکیل دیگی ۔ پارٹی نے ادعا کیا ہے کہ تلنگانہ میں پارٹی کے حق میں خاموش لہر رہی ہے ۔ ٹی آر ایس سربراہ مسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے فرزند کے ٹی راما راؤ نے پی ٹی آئی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم فیصلہ کن اکثریت کے ساتھ کسی کی بھی تائید کے بغیر حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔ ان اطلاعات پر کہ تلنگانہ میں ‘ جس کی تشکیل 2 جون کو عمل میں آنے والی ہے ‘ معلق اسمبلی تشکیل پا سکتی ہے ‘ کے ٹی راما راؤ نے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ ٹی آر ایس کو انٹلی جنس اور میڈیا ذرائع سے جو اطلاعات ملی ہیں وہ یہ ہیں کہ پارٹی کسی کی بھی تائید کے بغیر اپنے طور پر حکومت تشکیل دینے کے موقف میں رہے گی ۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کے حق میں ایک طاقتور خاموش لہر اور عوامی رائے نے کام کیا ہے ۔ اس سوال پر کہ اگر اسے اکثریت حاصل نہیں ہونے پائی تو کیا ٹی آر ایس انتخابات کے بعد کانگریس کے ساتھ مل کر کام کریگی کے ٹی آر نے کہا کہ ان کے خیال میں ایسی کوئی صورتحال پیدا نہیں ہوگی۔ ٹی آر ایس نے تلنگانہ میں اسمبلی کی تمام 119 اور لوک سبھا کی 17 نشستوں سے مقابلہ کیا ہے جبکہ کانگریس نے تلنگانہ میں سی پی آئی کے ساتھ مفاہمت کی ہے ۔ کانگریس کے اس الزام پر کہ ٹی آر ایس نے کبھی بھی اپنی پارٹی کو کانگریس میں ضم کرنے کا ارادہ نہیں رکھا تھا حالانکہ وہ بیانات دے رہی تھی کے ٹی آر نے کہا کہ اگر کوئی اسے درست بھی سمجھتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آر ایس نے پارٹی قائدین اور سماج کے مختلف طبقات کے ساتھ مشاورت کے بعد پارٹی کو کانگریس میں ضم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی نے جو فیصلہ کیا ہے

وہ انتخابی نتائج کے ذریعہ درست ثابت ہوجائیگا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کانگریس سمجھتی ہے کہ ٹی آر ایس کے انضمام نہ کرنے کے فیصلے سے اس کے سیاسی امکانات متاثر ہوئے ہیں تو وہ کچھ نہیں کرسکتے ۔ ٹی آر ایس اور کانگریس کی جانب سے ایک دوسرے پر تنقیدوں کے ساتھ چلی انتخابی مہم کے تعلق سے سوال پر انہوں نے کہا کہ کانگریس نے مہم کو شخصی بنادیا گیا تھا حالانکہ انتخابی مہم مسائل پر ہونی چاہئے ۔ کانگریس نے جو رویہ اختیار کیا ہم نے اس کا جواب دیا ۔ کے ٹی راما راؤ نے ‘ اس تاثر کو تقویت دیتے ہوئے کہ پارٹی تیسرے محاذ کے ساتھ جاسکتی ہے کہا کہ پارٹی کے سامنے صرف یو پی اے یا این ڈی اے کا ہی امکان نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں ہم خاطر خواہ تعداد میں لوک سبھا کی نشستوں سے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں جس کے نتیجہ میں ہم دہلی میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ اس سوال پر کہ آیا ان کی پارٹی یو پی اے کی تائید کریگی یا این ڈی اے کی انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ ملک دو اتحاد پر مبنی نہیں ہے ۔ وہ نہیں سمجھتے کہ دو قطبی سیاسی نظام ہے ۔ ان کے خیال میں صرف یو پی اے یا این ڈی اے اتحاد میں ہی انتخاب کا مسئلہ نہیں ہے ۔ وہ نہیں سمجھتے کہ این ڈی اے یا یو پی اے میں کسی ایک کو منتخب کرنا ہوگا ۔ انہوں نے ادعا کیا کہ انتخابات کے بعد جماعتوں کی از سر نو صف بندیاں ہونگی اور کئی تبدیلیاں ہوسکتی ہیں ۔ اس سوال پر کہ آیا ٹی آر ایس تیسرے محاذ کی تائید کر ررہیہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ تیسرے یا چوتھے محاذ کی بات نہیں کر رہے ہیں انتخابات کے بعد کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ ہم نے اپنے امکانات برقرار رکھے ہیں۔ تلنگانہ کے مفاد میں جو کچھ بھی ہوگا ہم کرینگے ۔ انہوں نے بی جے پی کے تلگودیشم سے اتحاد پر تنقید کی اور کہا کہ مودی نے چندرا بابو نائیڈو سے اتحاد کرکے پیر پر کلہاڑی مار لی ہے ۔ بی جے پی اور مودی نے ریاست میں خود کشی کرلی ہے ۔