تلنگانہ میں مفت برقی سربراہی کانگریس کا کارنامہ

چھتیس گڑھ اور خانگی کمپنیوں سے مہنگی برقی خریدنے کا حکومت پر الزام : محمد علی شبیر
حیدرآباد ۔ 3 ۔ جنوری : ( سیاست نیوز ) : قائد اپوزیشن تلنگانہ قانون ساز کونسل محمد علی شبیر نے مفت برقی سربراہی کو کانگریس کا کارنامہ قرار دیتے ہوئے پاور پوائنٹ پریزنٹیشن پیش کیا ۔ 5 ہزار میگاواٹ برقی کہاں سے اس کی وضاحت کرنے کا چیف منسٹر کے سی آر سے مطالبہ کیا ۔ بازار میں سستے داموں میں برقی دستیاب ہونے کے باوجود چھتیس گڑھ اور خانگی کمپنیوں سے مہنگی قیمتوں پر برقی خریدنے کا حکومت پر الزام عائد کیا ۔ آج اندرا بھون میں پاور پوائنٹ پریزنٹیشن پیش کرتے ہوئے حکومت کی پول کھول دی ۔ اس موقع پر صدر تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی اتم کمار ریڈی رکن اسمبلی ریونت ریڈی ، رکن قانون ساز کونسل پی سدھاکر ریڈی سابق وزراء سدرشن ریڈی ، سنیتا لکشما ریڈی ، سابق ارکان پارلیمنٹ وی ہنمنت راؤ ، پونم پربھاکر ، ملو روی صدر ضلع محبوب نگر کانگریس کمیٹی عبداللہ کوتوال جنرل سکریٹریز تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی ایس کے افضل الدین ، سید عظمت اللہ حسینی ، کارتیکا ریڈی ، کانگریس کے قائدین شجاعت علی ، محمد امتیاز کے علاوہ دوسرے موجود تھے ۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ 2 جون 2014 کو علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل پر ریاست میں 6573 میگاواٹ برقی دستیاب تھی جس کا خود حکومت تلنگانہ نے یکم جنوری کو تمام اخبارات میں اشتہارات دیتے ہوئے اس کا اعتراف کیا ہے ۔ کانگریس کے دور حکومت میں شروع کردہ پراجکٹس سے 3340 میگاواٹ برقی کی پیداوار شروع ہوچکی ہے ۔ ماباقی 5 ہزار میگاواٹ برقی کہاں سے آئی چیف منسٹر اس کی وضاحت کریں ۔ چیف منسٹر نے آئندہ سال برقی کی پیداوار 2800 میگاواٹ ہوجانے کا دعویٰ کیا ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے ۔ کیوں کہ ٹی آر ایس کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں ایک میگاواٹ برقی بھی تیار نہیں ہوئی ہے ۔ چیف منسٹر تلنگانہ نے یدادری اور بھدرا دری میں دو برقی پلانٹس کا سنگ بنیاد رکھا ہے ۔ جس کی ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے اور 2020 تک ان پراجکٹس سے برقی پیدا ہونے کے کوئی آثار نہیں ہے ۔ چیف منسٹر عوامی فنڈز کا بیجا استعمال کرتے ہوئے کانگریس کے کارناموں پر اپنی مہر لگانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ مگر ہمیشہ جھوٹ کام نہیں آئے گا ۔ سچائی عوام کے سامنے آکر رہے گی ۔ صدر کانگریس مسز سونیا گاندھی نے تقسیم ریاست بل میں تلنگانہ کے لیے 4000 میگاواٹ برقی پلانٹ کی منظوری دی تھی ۔ اس کے کاموں کا آغاز کرنے میں حکومت نے تاخیر کردی ہے ۔ صرف 800 میگاواٹ برقی تیار کرنے کے تعمیری کاموں کا آغاز کیا ہے ۔ چھتیس گڑھ سے مہنگا داموں پر برقی خریدی جارہی ہے ۔ جب کہ مارکٹ میں برقی 2 تا 4 روپئے فی یونٹ دستیاب ہے ۔ یو پی اے کے دور حکومت میں جی ڈی پی بڑھ کر 9 فیصد تک پہونچ گئی تھی ۔ اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے صنعتی ، آئی ٹی اور زرعی شعبہ کو زیادہ سے زیادہ برقی کی سربراہی کو یقینی بنانے کے لیے کئی منظوریاں دی تھی جس کا نتیجہ ہے ۔ ملک کے مختلف ریاستوں میں فاضل برقی دستیاب ہے ۔ اس کے علاوہ ملک میں صنعتی ترقی 60 فیصد اور زرعی شعبہ کی ترقی 80 فیصد تک گھٹ گئی ہے ۔ جس سے بڑے پیمانے پر برقی کی بچت ہورہی ہے ۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو نے رائلسیما کے 4 اضلاع میں زرعی شعبہ کو 24 گھنٹے مفت برقی سربراہ کی تھی جس کے منفی نتائج برآمد ہوئے اور حکومت کو سبسیڈی فراہم کرنے کے علاوہ 450 کروڑ روپئے کا مالی بوجھ عائد ہوگیا جس کے بعد چیف منسٹر آندھرا پردیش نے اپنا فیصلہ