تلنگانہ میں شعبہ تعلیم تباہی کے دہانے پر

طلبہ کو نقصان پہونچانے کے بعد تعلیمی ادارہ جات کو نشانہ بنانے کا آغاز
محمد مبشر الدین خرم
حیدرآباد۔2مئی۔ تلنگانہ میں شعبہ تعلیم تباہی کے دہانے پر ہے! حکومت تلنگانہ ریاست میں تعلیمی اداروں کے بعد اب کیا طلبہ کو نشانہ بنانے لگی ہے ! حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کو نشانہ بناتے ہوئے اور ریاست کے تعلیمی نصاب کو تبدیل کرنے کے اقدامات کے ذریعہ معیار تعلیم کو نقصان پہنچانے کی سازش تو نہیں کی جا رہی ہے! تقسیم ریاست اور تلنگانہ کی تشکیل کے بعد سے اب تک کوئی تعلیمی سال ایسا نہیں گذرا جس میں طلبہ ‘ اولیائے طلبہ یا تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں نے چین کی سانس لی ہو۔ریاست تلنگانہ کی تشکیل میں طلبہ کا کلیدی کردار رہا اور طلبہ نے ہی تحریک تلنگانہ میں شدت پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا لیکن تشکیل تلنگانہ کے بعد ریاست تلنگانہ میں طلبہ کے مفادات سے کھلواڑ کی کئی ایک مثالیں سامنے آئی ہیں اور طلبہ کو داخلو ںکے حصول میں مشکلات کے ساتھ اب تو نتائج کے متعلق بھی خائف رہنا پڑ رہا ہے ۔ تلنگانہ کی تشکیل سے قبل ریاست تلنگانہ میں انجینئرنگ کالجس میں داخلو ںکا عمل اس حد تک آسان ہوگیا تھا کہ ریاست میں ایمسیٹ کامیاب ہر طالب علم کو انجینئرنگ میں داخلہ حاصل ہونے لگا تھا اور کسی نہ کسی کالج میں وہ داخلہ حاصل کرپا رہے تھے لیکن تشکیل تلنگانہ کے بعد چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے معیار تعلیم کے نام پر کئی انجینئرنگ کالجس کو مہر بند کرنے کے اقدامات کئے جس کے نتیجہ میں انجینئرنگ کالجس کے انتظامیہ کی جانب سے کالجس کو بند کیا جانے لگا لیکن اس پر ریاستی حکومت نے خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ اس کے فوری بعد ڈگری کالجس کو نشانہ بناتے ہوئے ڈگری کالجس میں داخلہ کو آن لائن کرنے کے اقدامات کئے گئے جس کے نتیجہ میں طلبہ کو اپنی پسند کے کالجس میں داخلہ حاصل کرنے میں دشواری پیش آنے لگی اور کالجس کی جانب سے بھی نشستوں کے پر نہ ہونے کی شکایت کی جانے لگی اور ڈگری کالجس کی حالت بھی ابتر ہونے لگی ہے۔حکومت تلنگانہ نے تشکیل تلنگانہ کے بعد اسکول کے تعلیمی نصاب کو تبدیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے خانگی اسکولو ںمیں بھی سرکاری نصاب پڑھانے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلہ میں احکامات جاری کرتے ہوئے اسکول انتظامیہ کو ہدایت دی گئی کہ وہ اسکولی تعلیم میں سرکاری اسکولوں کے نصاب کو شامل کریں اور خانگی ناشرین کے نصاب کے استعمال کا سلسلہ ترک کریں۔حکومت کے ان احکامات کے خلاف خانگی اسکولوں کے ذمہ دارو ںکے علاوہ ناشرین نے بھی عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے حکومت کے اس فیصلہ کے خلاف احکام حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی اور اس کے بعد سے حکومت کی جانب سے خانگی اسکولوں میں سرکاری نصاب کو روشناس کروانے کے معاملہ میں کچھ بھی کہنے سے بھی اجتناب کیا جانے لگا ۔حکومت تلنگانہ نے ریاست میں ایس ایس سی امتحانات کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کے لئے بھی متعدد اقدامات کئے لیکن ان میں بیشتر اقدامات ناکام ثابت ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے پالیسی تیار کرنے والے عہدیداروں نے کوئی مثبت تبدیلی کی دلیل پیش نہیں کی اور اب انٹرمیڈیٹ بورڈ کے امتحانی نتائج نے ریاست میں طلبہ کو خوف و ہراس میں مبتلاء کردیا ہیا ور اب طلبہ کا یہ احساس ہے کہ امتحان کچھ بھی تحریر کرلیں کامیابی یا ناکامی جوابی بیاضات کی جانچ کرنے والوں کی مرہون منت ہے۔انٹر میڈیٹ امتحانات کے نتائج میں دھاندلیوں کے بعد اب ریاست میں طلبہ یہ کہنے لگے ہیں کہ امتحانات کی حالت بھی انتخابات کی طرح ہوچکی ہے کیونکہ جن لوگوں کی نگرانی میں تنقیح کروائی جا رہی ہے انکی حرکتیں واضح کرر ہی ہیں کہ ان کے کام میں کس حد تک سنجیدگی ہے اور وہ کس طرح سے کام انجام دے رہے ہیں۔انٹر میڈیٹ نتائج میں ہونے والی دھاندلیوں کے بعد اب ایس ایس سی امتحانات کے نتائج میں برتی جانے والی لاپرواہی کے انکشاف کے بعد یہ واضح ہوچکا ہے کہ حکومت تلنگانہ محکمہ تعلیم کی بہتری کے لئے سنجیدہ نہیں ہے بلکہ ریاست کے طلبہ کے مستقبل کو تابناک بنانے کے بجائے اسے تاریکی میں ڈالنے کا موجب بننے لگی ہے جس کے نتیجہ میں ریاست کے طلبہ میں مایوسی پیدا ہونے لگی ہے ۔داخلو ں کے حصول میں ہونے والی پریشانیوں سے مایوس طلبہ اب اپنے امتحانات کے نتائج کے متعلق ہی متفکر ہوتے جا رہے ہیں جو کہ ریاست کے مستقبل کے لئے بھی کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔