نئے اضلاع کی تشکیل میں مسلم نام نظرانداز، نظام حیدرآباد کی تعریف محض زبانی، مخصوص تہذیب کے ناموں پر اضلاع کی تشکیل
حیدرآباد ۔ 16۔ مئی (سیاست نیوز) دہلی اور اترپردیش میں مسلمانوں سے منسوب اہم مقامات کے ناموں کی تبدیلی کو بی جے پی کی کارستانی قرار دے کر عوام خاموش ہوگئے لیکن اب سیکولرازم کے بھیس میں تلنگانہ میں نئے اضلاع کی تشکیل کے ذریعہ جن ناموں کا اضافہ کیا گیا، وہ آر ایس ایس ایجنڈہ کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ خود کو سیکولر ظاہر کرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے اور ان کے حاشیہ بردار مسلم قائدین موجودہ وقت کا نظام قرار دیتے ہوئے دن رات ان کی تعریف اور ستائش میں مصروف رہتے ہیں لیکن اگر حکومت کے ایجنڈہ کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ تلنگانہ کے سابق 10 اضلاع کو تقسیم کرتے ہوئے نئے 33 اضلاع کی تشکیل بہتر حکمرانی سے زیادہ ایک سازش کا حصہ ہے۔ ابتداء میں 31 اضلاع تشکیل دیئے گئے، بعد میں مزید دو ضلعوں کا اضافہ کیا گیا۔ کے سی آر حکومت نے اگرچہ مسلم ناموں سے منسوب اہم اضلاع کے نام تبدیل کرنے کی ہمت نہیں کی لیکن نئے اضلاع میں ایک مخصوص تہذیب کی جھلک پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ نئے ناموں میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی مذہبی اور سماجی شخصیتوں کے ناموں کو ترجیح دی گئی لیکن ایک بھی نام مسلمانوں سے متعلق شامل نہیں کیا گیا ۔ نئے اضلاع میں بھدرادری ، کتاگوڑم ، جئے شنکر بھوپال پلی، جوگولمبا گدوال ، کمرم بھیم آصف آباد ، راجنا سرسلہ اور یادادری بھونگیر ایسے نام ہیں جو ایک مخصوص طبقہ کو خوش کرنے کی کوشش دکھائی دیتی ہے۔ حکومت نے آصف آباد علاقہ کو ضلع کا درجہ تو دیا لیکن اسے کمرم بھیم سے منسوب کردیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ آر ایس ایس اور اس کی تنظیموں کی جانب سے حکومت پر دباؤ بنایا جارہا تھا کہ وہ مسلم ناموں سے متعلق اضلاع کو تبدیل کرتے ہوئے نئے نام دیں لیکن حکومت نے ایسی حماقت نہیں کی برخلاف اس کے کہ نئے اضلاع کی تشکیل کے ذریعہ ہندو سماج کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محبوب نگر ضلع کا نام برقرار تو ہے لیکن سیاسی قائدین اسے پالمور ضلع کے نام سے پکارتے ہیں۔ حتیٰ کہ آبپاشی اسکیم کا نام بھی پالمور رکھا گیا ہے۔ پالمور رنگا ریڈی آبپاشی اسکیم کو محبوب نگر کے بجائے پالمور رکھنے کے پس پردہ حکومت کے آخر کیا مقاصد ہیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ قطب شاہی اور آصف جاہی سلاطین کی رعایا پروری اور مذہبی رواداری کی تعریف سے نہیں تھکتے لیکن انہوں نے ایک بھی نئے ضلع کا نام قطب شاہی یا آصف جاہی حکمرانوں کے نام پر نہیں رکھا ۔ آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں کو اپنا بادشاہ قرار دے کر کے سی آر ہمیشہ مسلمانوں کو خوش کرتے رہے ہیں لیکن انہیں نئے اضلاع کی تشکیل کے وقت یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ نواب میر عثمان علی خاں کے نام سے ایک ضلع کو موسوم کیا جائے۔ تلنگانہ تحریک کے نظریہ ساز پروفیسر جئے شنکر کے نام سے بھوپال پلی ضلع کو موسوم کیا گیا۔ اس پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن کے سی آر حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے سیکولرازم کو ثابت کرنے کیلئے بعض اضلاع کے نام مسلم حکمرانوں یا اہم شخصیتوں سے موسوم کرتے۔ اضلاع کو مسلمانوں کی اہم شخصیتوں کے نام پر رکھنا توکجا عثمانیہ یونیورسٹی لائبریری کے نام کو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر سے موسوم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ اس طرح عثمان علی خاں کی اس تاریخی نشانی کو ڈاکٹر امبیڈکر کا نام لگادیا گیا ۔ کیا یہی سیکولرازم ہے ؟ نظام کی تعلیم اور فلاحی کارناموں کی ستائش کرنے والے کے سی آر کو فوری طور پر یہ فیصلہ تبدیل کرنا ہوگا ، ورنہ یہ تصور کیا جائے گا کہ وہ فرقہ پرست طاقتوں کے دباؤ میں بتدریج مسلم نشانیوں کو ختم کرنے کی مہم پر ہے۔ لوک سبھا نتائج کے بعد اگر ٹی آر ایس مرکز میں بی جے پی کے ساتھ جاتی ہے تو پھر مسلم ناموں کی تبدیلی کی مہم شدت اختیار کرلے گی۔