تلنگانہ حکومت کے شعبہ صحت سے متعلق کئے گئے اقدامات سے ناراض اپوزیشن نے ریاست کے سرکاری دواخانوں کی زبوں حالی کے خلاف ایوان اسمبلی میں احتجاج کرکے صحت عامہ کو لاحق مسائل سے واقف کرانے کی کوشش کی ہے تو حکومت کو ذمہ دارانہ طرز کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر و وزیر صحت مسٹر ٹی راجیا نے تلنگانہ کے ہر ضلع ہیڈکوارٹر کے سوپر اسپیشالیٹی میں تبدیل کرنے کے لئے 10 کروڑ روپئے بجٹ مختص کرنے کا حوالہ دے کر اپوزیشن کے احتجاج کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ تلنگانہ حکومت کے بجٹ میں سرکاری دواخانوں کی ترقی کے لئے مختص رقومات کو ناکافی قرار دیا جارہا ہے۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں سرکاری دواخانوں کی ابتر حالت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
جب ریاست کے صدر مقام کے سرکاری دواخانوں کے تعلق سے آئے دن عوامی شکایات سے ان دواخانوں کی کارکردگی اور ڈاکٹروں، ادویات، عصری آلات کے علاوہ صاف صفائی کے معاملے میں ناقص پن بھی عیاں ہوتا ہے۔ اپوزیشن نے حکومت کو صحت عامہ کے حوالے سے یہ بات واقف کرانے کی کوشش کی ہے کہ حکومت کے ذمہ داروں کو اپنے دماغوں کی بائی پاس سرجری کرانے کی ضرورت ہے کیونکہ جب حکومت کے ذمہ داران ہی سرکاری دواخانوں کے تعلق سے موثر اقدامات کرنے میں کوتاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو عام اور غریب مریضوں کے لئے بہتر سے بہتر علاج کا جذبہ و عزم سرد پڑجاتا ہے۔ سرکاری دواخانوں کو بہتر بنانے سے متعلق حکومت کے مہربان اور ترجمان ریاستی بجٹ کی اہمیت کا فاتحانہ غرور کے ساتھ ایوان میں اپوزیشن کو نشانہ بنارہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سرکاری دواخانوں میں ناکافی انفراسٹرکچر ڈاکٹرس کی کمی، ادویات کی قلت، صفائی کے عدم انتظامات نے مسائل کو دوگنا کردیا ہے۔ شہر حیدرآباد کے قدیم دواخانہ عثمانیہ کو ایک کوڑادان اور کھنڈر میں تبدیل کرنے والی حکومتوں نے ہمیشہ نظرانداز کرکے اس کے مسائل کو جوں کا توں چھوڑ دیا ہے۔
تلنگانہ حکومت نے اپنے بجٹ میں عثمانیہ دواخانہ کے لئے 100 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں۔ گاندھی ہاسپٹل کیلئے 100 کروڑ روپئے جاری کئے جارہے ہیں۔ نیلوفر ہاسپٹل کیلئے 30 کروڑ روپئے جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ شہر کے دیگر سرکاری دواخانوں اور زچگی خانوں کے لئے بھی حکومت نے اپنے بجٹ میں کچھ نہ کچھ رقم مختص کی ہے، مگر اصل سوال یہ ہے کہ اتنی رقم سے ان دواخانوں کی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کیا جاسکے گا۔ بہتر انفراسٹرکچر کے بغیر صحت عامہ کو یقینی بنانے کا منصوبہ پورا نہیں ہوسکے گا۔ جونیر ڈاکٹرس کے احتجاج سے نمٹنے میں ناکام حکومت نے سرکاری سطح پر علاج کو موثر بنانے میں توقع پر نہیں اُتر سکی تو پھر آگے چل کر مسائل کا انبار برقرار رہے گا۔ تلنگانہ حکومت کو سرکاری دواخانوں میں ادویات کی قلت یا من مانی علاج، لاپرواہی سے تشخیص کی نکایات کو ادا کرنے پر توجہ دینی ہے۔ ادویات سے ہونے والے مضر اثرات کے ازالہ کے لئے حکومت کو فارماسیوٹیکل نگرانی کے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ سرکاری دواخانوں میں ادویات کے ری ایکشن کو روکنے کے لئے عصری ہیلتھ کیر انفراسٹرکچر کا ہونا لازمی ہے۔ غریبوں کے لئے ’’آروگیہ شری‘‘ جیسی اختراعی ہیلتھ کیر اسکیمات پر عمل آوری کو یقینی بنایا گیا تو شکایات کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔
سرکاری دواخانوں میں علاج معالج کو کارپوریٹ دواخانوں کے مقابل صفر کامیابی ملتی ہے جبکہ ان کارپوریٹ دواخانوں میں غریبوں کے لئے بہتر علاج کا انتظام نہ کرنے پر بھی حکومت کو نوٹ لینا ہوگا۔ سوپر اسپیشالیٹی دواخانوں میں سرکاری ملازمین کو جو آروگیہ شری اسکیم کے اہل نہیں، بہتر علاج دستیاب نہیں ہے۔ سرکاری دواخانوں کی ناقص صاف صفائی کی عام شکایات ہے، خاص کر جنرل وارڈس میں مریضوں کو گندے بیت الخلاؤں، فرش اور در و دیوار کی وجہ سے بھی بیکٹیریا اور حفظان صحت کے لئے مطلوب صفائی کی عدم موجودگی سے مریضوں کو صحت کی بہتری کی اُمید نہیں ہوتی۔ سرکاری دواخانوں میں ڈائیلاسس سسٹم کے تحت عصری آلات نہ ہونے کی شکایت کو بھی دور کرنے کی جانب توجہ دینا ضروری ہے۔ تلنگانہ کے سرکاری ڈائیلاسس سنٹرس پر خاطر خواہ سہولتیں نہیں ہیں۔ ریاست میں اس سرویس میں اضافہ کے لئے حکومت کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ شعبہ صحت کے حکام کو درپیش مسائل اور مطلوبہ آلات کی فراہمی پر فوری دھیان نہیں دیا گیا تو شعبہ صحت میں بہتری کیلئے حکومت تلنگانہ کی سنجیدگی کا سوال برقرار رہے گا۔